- فتوی نمبر: 33-53
- تاریخ: 10 اپریل 2025
- عنوانات: عبادات > قربانی کا بیان > عقیقہ کا بیان
استفتاء
(1) عقیقہ میں جو قربانی کی شرائط ہیں اس کا حوالہ حدیث مبارکہ یا آثار صحابہ سے مل سکتا ہے؟
(2) بڑے جانور میں عقیقے کا حصہ رکھنے کا جواز قرآن وسنت سے ثابت ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1) حدیث میں عقیقہ کے لیے “نسک” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور “نسک” قربانی کو کہتے ہیں جس سے معلوم ہوا کہ عقیقہ کے جانور کے لیے بھی وہی شرائط ہیں جو قربانی کے جانور کے لیے ہیں اور جس طرح قربانی کے بڑے جانور میں سات حصے ہوسکتے ہیں اسی طرح عقیقہ کے بڑے جانور میں بھی سات حصے ہوسکتےہیں اور صحابہ کرامؓ کےعمل سے بھی بڑے جانور میں عقیقہ کرنا ثابت ہے۔اسی وجہ سے امام ترمذیؒ نے اپنی کتاب سنن ترمذی جلد 3 صفحہ 726 میں اہل علم (صحابہؓ، تابعینؒ، تبع تابعینؒ، ائمہ اربعہؒ (کا بغیر کسی اختلاف کے یہ مؤقف نقل کیا ہے کہ عقیقہ میں بھی وہی جانور جائز ہے جو قربانی میں جائز ہے۔
اعلاءالسنن (17/117)میں ہے:
عن أم سلمة عن النبى صلى الله عليه وسلم فى العقيقة: قال: من ولد له ولد، فأحب أن ينسك عنه فليفعل [رواه الطبراني] و فيه انهﷺ سماه نسیکا ونسکا،وهو یعم الابل والبقر والغنم اجماعاَ۔ و فيه دلیل لقول الجمهور: لا یجزئ في العقيقة الا ما یجزئ فيه الا السلیم من العیوب لانه ﷺ سماه نسکا، فلا یجزئ فيه الا ما یجزئ فی النسک، وبه ظهر بطلان قول ابن حزم:یجزئ المعیب سواء کان مما یجوز فی الاضاحی، او لا يجوز فيها و السالم افضل.
سنن ترمذی (3/726) میں ہے:
والعمل على هذا عند أهل العلم يستحبون أن يذبح عن الغلام العقيقة يوم السابع، فإن لم يتهيأ يوم السابع فيوم الرابع عشر، فإن لم يتهيأ عق عنه يوم احدى وعشرين، وقالوا: لا يجزئ في العقيقة من الشاة إلا ما يجزئ في الأضحية
المجموع شرح المہذب (8/429) میں ہے:
المجزئ في العقيقة هو المجزئ في الأضحية فلا تجزئ دون الجذعة من الضأن أو الثنية من المعز والإبل والبقر هذا هو الصحيح المشهور وبه قطع الجمهور.
(2) بڑے جانور میں عقیقے کا حصہ رکھنا صحابہ کرامؓ کے عمل سے ثابت ہے چنانچہ حضرت انسؓ نے اپنے بیٹوں کا عقیقہ ایک اونٹ سے کیا تھا۔
مجمع الزوائد (4/62) میں ہے:
عن قتادة عن انس بن مالك كان يعق عن بنيه الجزور
ترجمہ: حضرت قتادہؓ سے مروی ہے کہ حضرت انس بن مالکؓ اپنے بیٹوں کی طرف سے اونٹ کا عقیقہ کرتے تھے۔
فتح الباری لابن حجر (9/ 593) میں ہے:
والجمهور على إجزاء الإبل والبقر أيضا وفيه حديث عند الطبراني وأبي الشيخ عن أنس رفعه يعق عنه من الإبل والبقر والغنم ونص أحمد على اشتراط كاملة وذكر الرافعي بحثا أنها تتأدى بالسبع كما في الأضحية والله أعلم.
اعلاء السنن (119/17) میں ہے:
ولو ذبح بدنة أو بقرة عن سبعة أولاد أو اشترك فيها جماعة جاز.
بدائع الصنائع (209/4) میں ہے:
ولو أرادوا القربة الأضحية أو غيرها من القرب أجزأهم سواء كانت القربة واجبة أو تطوعا أو وجبت على البعض دون البعض، وسواء اتفقت جهات القربة أو اختلفت بأن أراد بعضهم الأضحية وبعضهم جزاء الصيد وبعضهم هدي الإحصار وبعضهم كفارة شيء أصابه في إحرامه وبعضهم هدي التطوع وبعضهم دم المتعة والقران وهذا قول أصحابنا الثلاثة (إلى أن قال)(ولنا) أن الجهات وإن اختلفت صورة فهي في المعنى واحد؛ لأن المقصود من الكل التقرب إلى الله عز شأنه وكذلك إن أراد بعضهم العقيقة عن ولد ولد له من قبل؛ لأن ذلك جهة التقرب إلى الله تعالى عز شأنه بالشكر على ما أنعم عليه من الولد، كذا ذكر محمد رحمه الله في نوادر الضحايا.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved