- فتوی نمبر: 26-01
- تاریخ: 12 اپریل 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں زید ولد بکر ہوں ، میرے والد صاحب وفات پا چکے ہیں، وراثت میں ایک مکان واقع***** ہے، جس کا رقبہ چار مرلے ہے، اور اس کی قیمت میرے والد صاحب نے اپنی زندگی میں اسی لاکھ(8000000)روپے طے کی تھی ،جو دوبھائیوں(زید،عمر) نے ادا کرنی تھی ،والدکی وفات کو تقریباً عرصہ تین سال ہوا ہے، ان کے وارثان میں 6بیٹےاور 3بیٹیاں ہیں اور سب حیات ہیں، والد صاحب کی ہدایت کے مطابق بہنوں کا حصہ چار لاکھ روپے فی بہن مقرر کیا تھا جس میں سےدو بہنوں کو آٹھ لاکھ روپے دونوں بھائی ادا کرچکے ہیں ، مکان میں اس وقت 2بھائی رہائش پذیر ہیں زید اور عمر ،مکان دو حصوں پرمشتمل ہے (یعنی درمیان میں دیوار ہے) باقی بہن بھائیوں کو یہ دو بھائی جو رہائش پذیر ہیں ان کا حصہ ادا کریں گے ۔اب چونکہ والد صاحب وفات پاچکے ہیں شریعت کے حساب سے اب ان سب کا کتنا حصہ بنے گا ؟اور دوبہنوں کو چار چار لاکھ روپے والد صاحب کے سامنے ادا کر چکے ہیں (اور ایک بہن کو ابھی ادا نہیں کیے)۔اور اب یہ مکان زید اور عمر کے نام ہوچکا ہے، رجسٹری وغیرہ تمام کاغذات مکمل ہیں۔برائے مہر بانی رہنمائی فرمائیں۔
وضاحت مطلوب ہے کہ آپ کے والد صاحب نے اپنی زندگی میں ہی وراثت تقسیم کی تھی یا صرف ویسے ہی چار لاکھ روپیہ بہنوں کو دینے کا حکم دیا تھا؟
جواب وضاحت: اصل میں والد صاحب یہ مکان بیچنا چاہتے تھے ،لوگوں نے 50،55لاکھ قیمت لگائی ،تو میں نے کہا کہ میں 60لاکھ میں لینے کو تیار ہوں ، پھر بھائیوں نے والد صاحب کو بھڑکایا اور قیمت 80لاکھ مقرر کی جو دو بھائیوں نے مکان لے کر قیمت ادا کرنے کی ذمہ داری لے لی۔ پھر والد صاحب نے فرمایا کہ ان 80لاکھ میں سے 4،4لاکھ روپے وراثت میں سے بہنوں کو تم دونوں دو گے اور جو حصہ بھائیوں کا بنے گا وہ بھی تم دو گے۔
مزید وضاحت مطلوب ہے کہ :
(۱)آپکی والدہ حیات تھیں یا نہیں ؟(۲)سوال پوچھنے کی کیوں ضرورت پیش آرہی ہے کیا کوئی اختلاف ہے؟اگر اختلاف ہے تو دوسرے بھائیوں کا موقف بھیجیں۔(۳)بہنوں کے لئے 400000طے ہوا تھا توباقی بھائیوں کے لئے کیا طے ہوا تھا؟
جواب وضاحت: (۱)والد سے پہلے ہی والدہ کی وفات ہوگئی تھی۔(۲)میں چاہتا ہوں کہ بہنوں کو پورا حصہ ملے ،ان کی حق تلفی نہ ہو۔اور بھائی کہہ رہے ہیں کہ جو طے ہواتھا ویسے ہی تقسیم ہو۔(۳)بھائیوں کے لئے کچھ طے نہیں ہوا تھا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں جب والد کی زندگی میں یہ طے ہوا تھا کہ مکان 80لاکھ کے بدلے میں یہ دو بیٹے رکھیں گے اور وہ باقی بہن بھائیوں کو حصہ دیں گے تو یہ مکان ان دو بھائیوں کا ہوا ،اور اب 80لاکھ تمام بہن بھائیوں بشمول زید ، عمر میں تقسیم ہوں گے۔
والد نے جو حصہ (چار لاکھ)بیٹیوں کا مقرر کیا ہے یہ بیٹیوں کے شرعی حصہ سے کم ہے لہذا اس کمی کو پورا کرکے بہنوں کا حصہ دیا جائے ۔لہذا فی بہن533333روپے کی حقدار ہوگی اور فی بھائی1066667کا حقدار ہوگا۔
15 8000000
6بیٹے | 3بیٹیاں |
عصبہ | عصبہ |
2+2+2+2+2+2 | 1+1+1 |
فی بھائی | فی بہن |
1066667 | 533333 |
بدائع الصنائع(183/5) میں ہے:
وأما كيفية العدل بينهم فقد قال أبو يوسف العدل في ذلك أن يسوي بينهم في العطية ولا يفضل الذكر على الأنثى ، وقال محمد العدل بينهم أن يعطيهم على سبيل الترتيب في المواريث للذكر مثل حظ الأنثيين كذا ذكر القاضي الاختلاف بينهما في شرح مختصر الطحاوي ، وذكر محمد في الموطأ ينبغي للرجل أن يسوي بينهم ولا يفضل بعضهم على بعض وظاهر هذا يقتضي أن يكون قوله مع قول أبي يوسف وهو الصحيح……..لا بأس أن يعطي المتأدبين والمتفقهين دون الفسقة الفجرة
شامی (445/4) میں ہے:
حاصله أنه صرح في الظهيرية بأنه لو أراد أن يبر أولاده فالأفضل عند محمد أن يجعل للذكر مثل حظ الأنثيين وعند أبي يوسف يجعلهما سواء وهو المختار.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved