- فتوی نمبر: 31-14
- تاریخ: 16 اپریل 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > طلاق کا بیان > صریح و کنایہ دونوں طرح کے الفاظ سے طلاق دینا
استفتاء
بیوی کا بیان :
پہلی طلاق رمضان میں ان الفاظ میں دی ۔ “جا آج تجھے پہلی طلاق ہے”دوسری دفعہ تقریبا چھ مہینے بعد 9 دسمبر کو گھریلو جھگڑے کے بعد یہ الفاظ کہے” جامیں تجھے آزاد کرتا ہوں ،تجھے طلاق ہے” ۔اس وقت میں پانچ مہینے کی حاملہ بھی ہوں ۔
تنقیح : اسی دن میرے شوہر نے قاری صاحب سے جاکر پوچھ لیا تھا تو اگلے ہی دن زبان سے رجوع کے الفاظ کہہ دیے تھے ۔
شوہر کا بیان:
پہلی بات بالکل ٹھیک ہے ایسے ہی ہوا تھا ۔ دوسری بار بھی ایسے ہی ہوا لیکن بیوی نے اصرار کیا تو یہ معاملہ ہوا جو بیوی نے کہا ہے ، اس نے مجھے کہا کہ مجھے تم سے آزادی چاہیے تو میں نے کہا “جا میں نے تجھے آزاد کیا اور طلاق دی”
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں ۔ جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہوچکی ہے لہٰذا اب نہ صلح کی گنجائش ہے اور نہ رجوع ہوسکتا ہے ۔
توجیہ :9 دسمبر کے واقعہ میں جب شوہر نے یہ الفاظ بولے کہ ” جامیں تجھے آزاد کرتا ہوں یا جا میں نے تجھے آزاد کیا تجھے طلاق ہے” ۔ اس میں یہ جملہ ” میں نے تجھے آزاد کیا یا میں تجھے آزاد کرتا ہوں ” عرف کی وجہ سے طلاق میں صریح ہے لہٰذا اس سے ایک رجعی طلاق واقع ہوگئی۔ “اور تجھے طلاق دی ” بھی طلاق میں صریح ہے اور ضابطہ ہے کہ الصريح يلحق الصريح لہذا دونوں طلاقیں واقع ہوگئیں۔ چونکہ ایک طلاق شوہر پہلے بھی رمضان میں دے چکا تھا اس لیے اس کے بعد مزید دو طلاقیں دینے سے کل تین طلاقیں ہوگئیں جن کے بعد بیوی حرام ہوگئی ہے ۔
فتاوی شامی (3/ 306) میں ہے :
(قوله الصريح يلحق الصريح) كما لو قال لها: أنت طالق ثم قال أنت طالق أو طلقها على مال وقع الثاني بحر، فلا فرق في الصريح الثاني بين كون الواقع به رجعيا أو بائنا»
امداد الفتاوی(2/429) میں ہے :
یہ کہنا کہ آزاد کردی ہے ہمارے عرف میں طلاق کے لیے مستعمل ہے لہذا اس سے طلاق صریح واقع ہوجائیگی ۔
فاذا قال رها كردم اي سرحتك يقع به الرجعي مع ان اصله كناية ايضا وما ذاك الا لانه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق وقد مر ان الصريح ما لم يستعمل الا في الطلاق من اي لغه كانت .
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved