- فتوی نمبر: 33-200
- تاریخ: 21 جون 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وصیت کے احکام
استفتاء
میری والدہ نے اپنی زندگی میں میرے پاس ایک زیور امانت کے طور پر رکھا تھا ۔ اور مجھے وصیت کے طور پر کہا تھا کہ یہ زیور نہ کسی بیٹی کو دینا ہے اور نہ ہی بیٹوں کو دینا ہے کیونکہ میں نے ہر ایک کو وقت کے مطابق دے دیا ہے جب میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کی زندگی میں اور آپ کے جانے کے بعد اس کا کیا کرنا ہے تو انہوں نے کہا یہ میرے مرنے کے بعد اللہ کی راہ میں خرچ کر دینا۔ اب میں اس کا کیا کروں؟ باپ کی وراثت میں ایک مکان ہے اور انہوں نے اپنی زندگی میں مجھے بہت زور دے کر کہا تھا میں یہ زیور کسی کو نہ دوں ۔
وضاحت مطلوب ہے:1۔والدہ کی کل وراثت کتنی ہے ؟2۔اس زیور کی مالیت کتنی ہے؟3۔کیا یہ زیور والدہ کے کل ترکہ کا ایک تہائی حصہ بنتا ہے؟
جواب وضاحت :1۔ کل ترکہ میری والدہ کا صرف یہ زیور ہی ہے جو میرے والد کی کمائی سے بنا ہوا ہے ۔2۔بائیس لاکھ اندازاً۔3۔ یہ زیور ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں اگر سب ورثاء عاقل بالغ ہوں اور دلی رضامندی سے اس وصیت پر عمل کرنے کے لیے تیار ہوں تو اس تمام زیور کو اللہ تعالی کی راہ (کسی مسجد یا مدرسے) میں خرچ کر دیا جائے اور اگر سب راضی نہ ہوں تو جو راضی ہوں ان کے حصوں کی بقدر خرچ کر دیا جائے اگر کوئی بھی راضی نہ ہو تو کم از کم اس زیور یا اس کی قیمت کا تیسرا حصہ اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کر دیا جائے۔
شامی (10/353) میں ہے:
هى تمليك مضاف إلى ما بعد الموت.
ہندیہ (6/90) میں ہے:
ولا تجوز بما زاد على الثلث الا ان يجيزها الورثة بعد موته وهم كبار .
رد المحتار (6/761) میں ہے:
ثم يقسم الباقي بعد ذلك بين ورثته بالكتاب والسنة والاجماع.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved