- فتوی نمبر: 33-226
- تاریخ: 24 جون 2025
- عنوانات: حظر و اباحت > پردے کا بیان
استفتاء
اگر کوئی لڑکی مہندی لگا کر اس کی ویڈیو بنا کر اپنے یوٹیوب چینل پر اپلوڈ کرتی ہو تو اس سے جو کمائی ہوگی وہ حلال ہوگی یا نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ ویڈیو اپلوڈ کرنے کی اجازت ہے تاہم بہتر یہ ہے کہ اپلوڈ نہ کی جائے کیونکہ اپلوڈ کر دینے کی صورت میں اجنبی مردوں کا ان مہندی سے مزین ہاتھوں کے دیکھنے کا بھی احتمال ہے جو ان کے لیے فتنے کا باعث ہو سکتا ہے۔
توجیہ: عورت کے ہاتھ اگرچہ ستر میں داخل نہیں البتہ فتنے کا باعث ہونے کی وجہ سے بلا ضرورت اپنے ہاتھ اجنبی مردوں کو دکھانا ممنوع ہے لیکن یہ ممانعت اس صورت میں ہے جب اجنبی مرد کا ہاتھوں کو دیکھنا یقینی ہو مذکورہ صورت میں چونکہ اجنبی مرد کا عورت کے ہاتھوں کو دیکھنا یقینی نہیں اس لیے گنجائش ہے اور چونکہ دیکھنے کا احتمال بھی ہے یعنی اگر کوئی دیکھنا چاہے تو وہ دیکھ سکتا ہے اور اسے روکا نہیں جا سکتا اور یہ دیکھنا اس کے لیے فتنے میں ابتلاء کا سبب بن سکتا ہے اس لیے بہتر یہی ہے کہ مذکورہ صورت سے اجتناب کیا جائے۔
البحر الرائق (1/284) میں ہے:
قوله (وبدن الحرة عورة الا وجهها وكفيها وقدميها) لقوله تعالى “ولا يبدين زينتهن الا ما ظهر منها” قال ابن عباس وجهها وكفيها……… ولأن النبي صلى الله عليه وسلم نهي المحرمة عن لبس القفازين والنقاب ولو كانا عورة لما حرم سترهما ولأن الحاجة تدعو إلى إبراز الوجه للبيع والشراء وإلى إبراز الكف للأخذ والإعطاء فلم يجعل ذلك عورة…….. قال مشايخنا تمنع المرأة الشابة من كشف وجهها بين الرجال للفتنة.
الدرالمختار مع ردالمحتار (2/79) میں ہے:
وتمنع المرأة الشابة من كشف الوجه بين الرجال لا لأنه عورة بل لخوف الفتنة
قوله: (وتمنع المرأة ) أي تنهى عنه وإن لم يكن عورة……. والمعنى تمنع من الكشف لخوف أن يرى الرجال وجهها فتقع الفتنة لأنه مع الكشف قد يقع النظر إليها بشهوة.
امداد الاحکام (4/337) میں ہے:
سوال:۔ پردہ کے بارے میں فقہاء کرام نے یہ کیسے لکھ دیا کہ إلا وجهها وکفيها اور ولا يبدين زينتهن إلا لبعولتهن سے مستنبط کرتے ہیں کہ زینت سے مواضع زینت مراد ہیں اور وجہ وکف موضع زینت نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ دونوں عضو اعلیٰ درجہ کے موضع زینت ہیں یعنی وجہ کی زینت پان ہسیّ،سرمہ سے اور ناک کی زینت کیل اور نتھ سے کی جاتی ہے اور ہاتھ کی مہندی اور انگوٹھیوں سے کی جاتی ہے۔ بخلاف اس کے عضو مستور مواضع زینت نہیں ہیں۔ کیونکہ نہ اس کے لئے خاص زیور ہے اور نہ کوئی خاص مصالحہ یا خضاب۔ پھر اگر فقہاء کا قول مان لیا جاوے تو مروجہ پردہ بالکل رخصت ہوجائے گا بلکہ امتثال امر بلکہ اجتناب بدعت کے طور پر اسے خود رخصت کرنا پڑے گا۔
الجواب: فقہاء کرام نے وجہ وکفین کا استثناء’’ولا يبدين زينتهن‘‘ سے مستنبط نہیں کیا بلکہ اس کے بعد حق تعالیٰ نے الاَّ ما ظهر منها فرمایا ہے۔ اس سے یہ استثناء مستنبط ہے۔ خلاصہ یہ ہوا کہ زینت کی دو قسمیں ہیں۔ ایک زینت خفیہ (جس کے اخفاء میں حرج نہیں) دوسری زینت ظاہرہ (جس کے اخفاء میں کام کرنے والی عورتوں کو حرج ہوتا ہے) پس وجہ وکفین بھی داخلِ زینت ہیں مگر وہ از قبیل زینت ظاہرہ ہیں۔ منجملہ زینت خفیہ کے نہیں اور یہ بات بالکل بدیہی ہے۔ غریب عورتوں کو کام کاج کے حرج کے واسطے اظہار وجہ وکفین کی سخت ضرورت ہوتی ہے لہٰذا اس کو عورت نہیں قرار دیا گیا البتہ اگر خوفِ فتنہ ہو تو اس وقت اس کا چھپانا بھی واجب ہے۔ چنانچہ اس وقت کے لئے حکم ہے۔یا أيها النبی قل لأزواجک وبناتک ونساء المؤمنین یدنین عليهن من جلابيبهن (فی الجلالین جمع جلباب وهى الملحفة الّتی تشتمل بها المرأة أی یرخین بعضها علی الوجوه إذا خرجن لحاجتهن الاّ عینًاواحدة اور جس وقت باہر نکلنے کی ضرورت نہ ہوبلکہ اس سے استغناء ہو تو اس وقت کے لئے یہ حکم ہے وقرن فی بیوتکن ولاتبرجن تبّرج الجاهلية الاولیٰ.وفی الجلالین تحت قوله تعالیٰ ولایبدین زینتهن إلا ما ظهر منها، وهو الوجه والکفان فیجوز نظره لأجنبی إن لم یخف فتنة فی احد الوجهين والثانی یحرم لأنه مظنة الفتنة ورجح حسما للباب.ولیضربن بخمرهن على جيوبهن ولایبدین زينتهن الخفية وهى ما عدا الوجه والکفین الخ اس سے معلوم ہوگیا کہ استثناء وجہ وکفین الاَّ ما ظهر منها سے مستنبط ہے اور اس کو محل زینت سے خارج نہیں کیا گیا اور اس کا کھولنا بوقت ضرورت بقید امن عن الفتنہ جائز ہے۔ ان عورتوں کو جن کو باہر نکلنے کی ضرورت ہوتی ہے اور جب اس سے مستغنی ہوں ان کے لئے قرار فی البیوت کا حکم ہے۔ پس پردہ مروّجہ کس طرح رخصت ہوسکتا ہے۔
آپ کے مسائل اور ان کا حل (8/106) میں ہے:
سوال: محض شک کی بنا پر گھر کے دروازے کھڑکیاں بند رکھنا کہ کہیں کسی غیر مرد کی نظر خواتین پر نہ پڑے، حالانکہ بے پردگی کا قطعی امکان نہ ہو کہاں تک درست ہے؟
جواب : گھر میں پردے کا اہتمام تو ہونا چاہئے لیکن اگر مکان ایسا ہے کہ اس سے بے پردگی کا احتمال نہ ہو تو خواہ مخواہ شک میں پڑنا صحیح نہیں۔ شک اسلام کی تعلیم نہیں بلکہ ایک نفسیاتی مرض ہے جو گھر کے ماحول میں بد اعتمادی کو جنم دیتا ہے اور جس سے رفتہ رفتہ گھر کا ماحول آتش کدہ بن جاتا ہے۔ البتہ دروازوں ، کھڑکیوں سے اگر غیر نظروں کے گزرنے کا احتمال ہو تو ان پر پردے لگانے چاہئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved