- فتوی نمبر: 33-240
- تاریخ: 28 جون 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > طلاق کا بیان > تین طلاقوں کا حکم
استفتاء
میرا نام **** ہے۔ میرا دو سال پہلے نکاح ہوا تھا ،کچھ دیر بعد ہم میں لڑائیاں شروع ہو گئیں۔ چھ ماہ بعد کا واقعہ ہے کہ میں بہت زیادہ غصے میں تھا مجھے کچھ بھی ہوش نہ تھا اور میں اکیلا تھا غصے میں فون پر اپنی بیوی کو گالیاں بھی دے رہا تھا چیخ رہا تھا دیواروں پر مکے مار رہا تھا ،مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا اور میں نے اس ٹائم منہ سے طلاق بول دیا فون پر پھر جب کچھ دیر بعد ہوش آیا کہ میں نے یہ کیا کر دیا ؟ بہت غلط کر دیا، پھر ہم نے امام سے پوچھ کر رجوع کر لیا اور ہم ساتھ رہنے لگے۔ اور پھر چھ ماہ بعد دوبارہ فون پر لڑائی ہوئی میں اسے کسی کام سے روک رہا تھا اور میرا غصہ بہت زیادہ ہو گیا تھا مجھ پر میرا قابو نہ تھا خود کو مار رہا تھا اور بے قابو ہو گیا تھا اور میں نے “طلاق دیتا ہوں” بول دیا تھا اس کے بعد سب سے پوچھا کہ رجوع کر لیں کسی نے کہا “نہیں” ،کسی نے کہا “ہاں کرلو” اور ہم نے پھر رجوع کر لیا اور ساتھ رہنے لگے ، دوسری مرتبہ نکاح نہیں کیا تھا مگر سب کہتے کہ نکاح ضروری ہوتا ہے لیکن ہم دونوں ساتھ ایسے ہی رہے بس رجوع کیا ، آٹھ ماہ بعد میری بیوی نے مجھے کہا “مجھے ساتھ نہیں رہنا مجھے وہ لفظ بول دیں” میں بہت زیادہ رویا میں نہیں دے رہا تھا مجھے بہت مجبور کیا گیا پھر میں اس وقت ہوش میں تھا اور میں نے بول دیا “میں تمہیں طلاق دیتا ہوں” یہی آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ میری غصے میں ایسی حالت تھی تو کیا طلاق ہو جاتی ہے؟ اب میری بیوی اور میں واپس ساتھ رہنا چاہتے ہیں اس کا کوئی حل ہو سکتا ہے ؟ کیا ہم واپس نکاح کر سکتے ہیں؟ ہم دونوں بہت شرمندہ ہیں ہم اللہ پاک سے دعا کر کر رہے ہیں ہم ساتھ رہیں۔
دارالافتاء کے نمبر سے بیوی کا مؤقف معلوم کیا گیا تو اس نے درج ذیل بیان دیا۔
بیوی کا بیان:
پہلی مرتبہ جب میرے شوہر نے مجھے طلاق دی تو اس وقت فون پر بات ہو رہی تھی وہ بہت شدید غصے میں تھے بہت چیخ رہے تھے انہیں کچھ ہوش نہیں تھا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں ان کے ساتھ یہ مسئلہ ہے کہ جیسے ان کے اندر کوئی چیز آگئی ہو وہ اپنے دوستوں کے ساتھ بھی اس طرح لڑ پڑتے ہیں ۔پہلے واقعہ کے بعد رجوع ہو گیا تھا پھر ہم اکٹھے رہنے لگے دوسرے واقعہ میں میں سفر پر تھی وہ مجھے کسی بات سے فون پر روک رہے تھے اور ان کی حالت پہلے جیسی تھی بلکہ مجھے فون پر آوازیں آ رہی تھی کہ وہ کمرے کی چیزیں توڑ رہے ہیں مکے مار رہے ہیں اس دفعہ بھی ایک دفعہ یہ جملہ بولا “میں تمہیں طلاق دیتا ہوں” اس دوران موبائل بھی توڑ دیا ہم نے دوبارہ رجوع کر لیا تیسری دفعہ آج سے دو ہفتے پہلے یہ ہوا کہ میں نے ان سے تنگ آ کر کہا کہ “مجھے طلاق دے دیں” ہم دونوں رو رہے تھے مجھے اندازہ نہیں تھا کہ وہ واقعی طلاق دے دیں گے وہ نارمل تھے بس روتے ہوئے یہ کہا کہ “اگر تمہاری خوشی اس میں ہے تو میں تمہیں طلاق دیتا ہوں” تین مرتبہ یہ جملہ کہا ۔
تنقیح: دارالافتاء سے وضاحت کے لیے جب شوہر کو فون کیا گیا تو شوہر نے بتایا کہ میں نے تیسرے واقعہ میں تین دفعہ ایک مجلس میں یہ کہا تھا کہ ” میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں”۔سائل کے خیال میں چونکہ اکٹھی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی ہیں اس لیے سوال میں سائل نے ایک دفعہ کا ذکر کیا ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں تینوں طلاق واقع ہو گئی ہیں لہذا اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ صلح کی کوئی گنجائش ہے۔
توجیہ: طلاق کے الفاظ بولتے وقت اگر شوہر کا غصہ اتنا شدید ہو کہ اس سے خلاف عادت افعال صادر ہونے لگیں تو ایسی حالت میں طلاق واقع نہیں ہوتی۔ مذکورہ صورت میں پہلے دو واقعات میں چونکہ شوہر سے خلاف عادت افعال مثلا ً دیوار پر مکے مارنا،خود کو مارنا ، کمرے کی چیزیں اٹھا کر پھینکنا اور موبائل توڑنا صادر ہوئے اس لیے ان دو واقعات میں طلاق کے الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی البتہ تیسرے واقعہ میں شوہر نے “میں تمہیں طلاق دیتا ہوں “تین مرتبہ کہا تو اس وقت اس کے ہوش و حواس درست تھے اور کوئی خلاف عادت فعل صادر نہیں ہوا اس لیے ان الفاظ سے تینوں طلاق واقع ہو گئیں۔
نیز واضح رہے کہ تین طلاقیں دینے سے تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں چاہے اکٹھی ایک مجلس میں دی جائیں یاا لگ الگ مجالس میں دی جائیں۔جمہور ،صحابہ کرامؓ، تابعین اور ائمہ اربعہ کا یہی مذہب ہے۔
ابو داؤد شریف(1/666 حدیث نمبر 2197 ط بشری) میں ہے:
عن مجاهد قال: كنت عند ابن عباس رضي الله عنهما فجاءه رجل فقال: أنه طلق امرأته ثلاثا. قال: فسكت حتى ظننت أنه رادها إليه.ثم قال: ينطلق احدكم فيركب الحموقة ثم يقول يا ابن عباس يا ابن عباس وان الله قال (ومن يتق الله يجعل له مخرجا ) وانك لم تتق الله فلا اجد لك مخرجا عصيت ربك وبانت منك امراتك
’’مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکے پاس بیٹھا تھا کہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہا کہ اس نے اپنی بیوی کو(اکٹھی) تین طلاقیں دے دی ہیں تو (کیا گنجائش ہے اس پر) عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما اتنی دیر تک خاموش رہے کہ مجھے یہ خیال ہونے لگا کہ (حضرت کوئی صورت سوچ کر ) اسے اس کی بیوی واپس دلا دیں گے پھر انہوں نے فرمایا تم میں سے ایک شروع ہوتا ہے تو حماقت پر سوار ہو جاتا ہے اور (اکٹھی تین طلاقیں دے بیٹھتا ہے ) پھر آکر کہتا ہے اےابن عباس اےابن عباس (کوئی راہ نکالیئے کی دہائی دینے لگتا ہے ) حالانکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے ومن یتق الله یجعل له مخرجا (جو کوئی اللہ سے ڈرے تو اللہ اس کے لیے خلاصی کی راہ نکالتے ہیں۔)‘‘
تم نے اللہ سے خوف نہیں کیا (اور تم نے اکٹھی تین طلاقیں دے دیں جو کہ گناہ کی بات ہے) تو میں تمہارے لئے کوئی راہ نہیں پاتا (اکٹھی تین طلاقیں دے کر) تم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور تمہاری بیوی تم سے جدا ہوگئی۔
علامہ بدرالدین العینی رحمہ اللہ صحیح بخاری شریف کی شرح عمدۃ القاری (232/1)میں تحریر فرماتے ہیں :
مذهب جماهير العلماء من التابعين ومن بعدهم من الاوزاعي والنخعي والثوري و ابو حنيفه واصحابه ومالك واصحابه والشافعي واصحابه واحمد واصحابه و اسحاق وابو ثور وابو عبيدة واخرون كثيرون على ان من طلق امراته ثلاثا يقعن ولكنه ياثم.
ہندیہ (1/355) میں ہے:
متى كرر لفظ الطلاق بحرف الواو أو بغير حرف الواو يتعدد الطلاق
بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:
وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة
رد المحتار(4/439) میں ہے:
وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه. والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله.
الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، والأدلة على عدم نفوذ أقواله. اه……………
(وبعد اسطر) فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن إدراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved