• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

متفرق مسائل

استفتاء

سائل سعودی عرب میں ہے  اور وہاں پر چند مسائل ہیں جو درج ذیل ہیں:

1۔سعودی عرب میں مساجد میں پہلی باجماعت نماز کے بعد دیر سے آنے والے لوگ مسجد میں ہی اپنی دوسری جماعت کرواتے ہیں۔ کیا اس میں شامل ہونا چائیے یا اپنی الگ انفرادی نماز پڑھیں؟

2۔کبھی کبھار یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ دوسری یا تیسری یا چوتھی جماعت  بھی ہوتی ہے اور امام  ایسا  شخص ہوتا ہے جو  سنّت مثلا داڑھی وغیرہ سے محروم ہوتا ہے۔

3۔نا بالغ بچے کو بھی جماعت کرواتے دیکھا ہے۔ اس صورت میں کیا کیا جائے؟ اگر ایسے موقع پر اپنی الگ نماز پڑھیں تو وہاں پر موجود عرب عجیب نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور کہتے ہیں    ” انت باکستانی مشکله“.

4۔ایک مسئلہ یہ پیش آتا ہے کہ مثلاً اگر عصر کی نماز کی مثال لیں    تو اکثر اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ مسجد میں دوسری یا تیسری جماعت ہو رہی ہے، ہم اس میں شامل ہو گئے ، اور اس میں مثلا دو  رکعت رہ گئیں جو کہ امام کے سلام کے بعد اپنی پڑھنی ہیں، اب کئی دفع ایسے ہوا کہ میں اپنی دو  رکعت پڑھ رہا ہوں(جو کہ امام کے سلام کے بعد کی ہیں)  اب بعد میں نیا نمازی یا نیا آنے والا شخص کندھے پر ہاتھ مارتا ہے اور میرے ساتھ نماز میں شامل ہو جاتا ہے  ۔اب یہ کہ میں امام بن گیا اور آنے والے نمازی میرے  مقتدی بن گئے  اب اس صورت میں کیا کریں ؟  کونسا ایسا اشارہ کریں کہ انکو پتہ چلے کہ میں امام نہیں ہوں۔میں تو اپنی ہی رہی ہوئی  رکعت  پڑھ  رہا ہوں یا امام بن کر انکی بھی نماز  کی نیت کر ڈالوں؟

5۔کئی دفع ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ ایک چین (تسلسل   ) بن جاتا  ہے کہ اپنی ہی رکعت پڑھنے  والا شخص جو کہ ایک منٹ پہلے تک تو مقتدی تھا اور اسی نماز میں وہ امام بن گیا۔کیا ایسی صورت میں نماز  ہوجائے گی؟

6۔اب کبھی کبھار یہ بھی پتہ نہیں لگتا  کہ  یہ واقعی امام کی  نیت سے نماز پڑھ رہا ہے یا یہ مقتدی ہے جو دوران نماز امام بن گیا ہے۔اگر ان صورتوں میں نماز پڑھنی پڑ جائے تو کیا کریں ؟

7۔دوران سفر اکثر عرب لوگوں کے ساتھ ہوتے ہوئے  انکی ظہر اور عصر کی نماز یا مغرب عشاء کی نماز اکھٹے ہوتی ہیں ، کیا انکے ساتھ ٢، ٢، نمازیں اکھٹی پڑھ لیں؟

8۔ اب مغرب کے وقت بارش ہو رہی تھی  تومغرب اور عشاء کی نماز ایک کے بعد دوسری جماعت  مغرب کے وقت ہی ہوجاتی ہے، اب جب ہم مسجد پہنچے تو امام قرات کر رہا تھا، ہم بھی مغرب کی نیت  کر کے جماعت میں شامل ہوگئے جب امام چوتھی رکعت کے لئے کھڑا ہوا تب پتہ چلا کہ یہ تو عشاء کی نماز پڑھ رہا ہے ، ہم نے تو مغرب کی نماز پڑھنی تھی ، اب ایسی صورت میں کیا کریں ؟ مجبوراً امام کے ساتھ 4 پڑھ لیں   لیکن مغرب کی نماز تو رہ گئی! اب اپنی مغرب انفرادی پڑھ لیں ؟ اگر بارش کی صورت میں مغرب اور عشاء اکھٹی پڑھنی پڑھ جائیں تو پہلے فرض ادا کر کے پھر مغرب اور عشاء کی سنتيں اور وتر ادا کریں گے ؟

9۔ غیر ملکی (سعودی عرب ) میں ہونے کی وجہ سے ہمارے اکثر دوست جن کا کوئی عزیز رشتہ دار پاکستان میں فوت ہوجاے ، تو اسکا غائبانہ نماز جنازہ دیکھنے کو ملتا ہے، کہ اپنے کمرے میں ہی یا بڑی مجلس میں چند دوست اکھٹے ہو کر جنازہ ادا کرتے ہیں۔ کیا ایسا کرنا درست ہے؟ اگر ہے تو صرف قریب اقربا کا ہی جنازہ پڑھنا چائیے یا کہ ہر ایک کا ؟ کن کن لوگوں کا اس طرح غائبانہ نماز جنازہ ادا کرنا چاہیے  ؟ اور اسکی ترتیب بھی عام جنازہ والی ہوگی، کہ ایک امام بن جائے ؟ اور نیّت کیا کریں گے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ اپنی الگ انفرادی نماز پڑھیں تاہم دوسروں پر زیادہ نکیر نہ کریں۔

شامی (1/252) میں ہے:

‌ويكره ‌تكرار ‌الجماعة بأذان وإقامة في مسجد محلة لا في مسجد طريق أو مسجد لا إمام له ولا مؤذن.

امداد الاحکام (4/497) میں ہے:

الجواب:ويكره تكرار الجماعة في مسجد محلة بأذان وإقامة، إلا إذا صلى بهما فيه أو لا غير أهله،أوأهله لكن بمخافتة الأذان، ولوكررأهله بدونهما أوكان مسجدطريق جازإجماعا؛كما في مسجد ليس له إمام ولامؤذن ويصلي الناس فيه فوجا فوجا، فإن الأفضل أن يصلي كل فريق بأذان وإقامةعلى حدة كما في أمالي قاضي خان اه (ص٥٧٧ج١)وفيه(ص٥٧٨ج١)وقدمنافي باب الأذان عن آخرشرح المنيةعن أبي يوسف أنه إذا لم تكن الجماعةعلى الهيئة الأولى لاتكره وإلا تكره،وهوالصحيح،وبالعدول عن المحراب تختلف الهيئة كذا في البزازية انتهى.وفي التتارخانية عن الولوالجية:وبه نأخذ

2۔ اس کے پیچھے نماز نہ پڑھیں۔

البحر الرائق (2/435) میں ہے:

(قوله وكره ‌إمامة ‌العبد والأعرابي والفاسق والمبتدع والأعمى وولد الزنا) بيان للشيئين الصحة والكراهة أما الصحة فمبنية على وجود الأهلية للصلاة مع أداء الأركان وهما موجودان من غير نقص في الشرائط والأركان ومن السنة حديث «صلوا خلف كل بر وفاجر» ، وفي صحيح البخاري أن ابن عمر كان يصلي خلف الحجاج وكفى به فاسقا كما قاله الشافعي، وقال المصنف إنه أفسق أهل زمانه.

کفایت المفتی (9/175) میں ہے:

داڑھی منڈوانا اوراتنی کترواناکہ ایک مشت سے کم رہ جائے مکروہ تحریمی ہے داڑھی منڈوانے والے اور اتنی کتروانے والے کے پیچھے نماز مکروہ ہے۔

3۔حنفیہ کی تحقیق میں نابالغ کی اقتداء میں بالغ کی نماز نہیں ہوتی لہذا ایسی صورت میں اپنی الگ نماز پڑھیں اور کسی کے کچھ  کہنے کے پرواہ نہ کریں۔

ہدایہ(1/57) میں ہے:

‌وأما ‌الصبي ‌فلأنه متنفل فلا يجوز اقتداء المفترض به وفي التراويح والسنن المطلقة جوزه مشايخ بلخ رحمهم الله ولم يجوزه مشايخنا رحمهم الله

الاختیار لتعلیل المختار(1/58) میں ہے:

قال: (‌ولا ‌تجوز ‌إمامة ‌النساء والصبيان للرجال) أما النساء فلقوله  عليه الصلاة والسلام: أخروهن من حيث أخرهن الله» ، وإنه نهي عن التقديم. وأما الصبي فلأن صلاته تقع نفلا فلا يجوز الاقتداء به، وقيل: يجوز في التراويح لأنها ليست بفرض، والصحيح الأول لأن نفله أضعف من نفل البالغ فلا يبتنى عليه.

4۔ مذکورہ صورت میں اول تو آپ کے لیے دوسری  یا تیسری جماعت میں شامل ہونا ہی درست نہیں تاہم اگر آپ شامل ہو گئے ہیں تو امام کے سلام کے بعد آپ اپنی نماز پڑھتے رہیں آپ کو کچھ اشارہ وغیرہ کرنے کی ضرورت نہیں جب آپ بلند آواز سے تکبیرات وغیرہ نہیں کہیں گے تو انہیں خود ہی اندازہ ہو جائے گا کہ آپ ان کے لیے امام نہیں بنے

5۔آپ کی نماز ہو جائے گی باقیوں کی نماز کے آپ ذمہ دار نہیں وہ خود ذمہ دار ہیں۔

6۔جب آپ اپنی نماز الگ پڑھیں گے تو یہ مسائل آپ کو پیش نہیں آئیں گے۔

شامی (1/596) میں ہے:

‌والمسبوق ‌من ‌سبقه الإمام بها أو ببعضها وهو منفرد فيما يقضيه إلا في أربع فكمقتد أخذها لا يجوز الاقتداء به.

7۔ فقہ حنفی کی رو سے اس کی اجازت نہیں۔

8-مذکورہ صورت میں آپ اپنی نماز توڑ دیں اور مغرب اور عشاء کو اپنے اپنے وقت میں پڑھیں

صحیح بخاری (1/288) میں ہے:

عن ‌عبد الله رضي الله عنه قال: «ما رأيت النبي صلى الله عليه وسلم صلى صلاة ‌بغير ‌ميقاتها، إلا صلاتين: جمع بين المغرب والعشاء، وصلى الفجر قبل ميقاتها»

شامى(2/55) ميں ہے:

(‌ولا ‌جمع ‌بين ‌فرضين في وقت بعذر) سفر ومطر خلافا للشافعي، وما رواه محمول على الجمع فعلا لا وقتا (فإن جمع فسد لو قدم) الفرض على وقته (وحرم لو عكس) أي أخره عنه (وإن صح) بطريق القضاء (إلا لحاج بعرفة ومزدلفة)

(قوله: محمول إلخ) أي ما رواه مما يدل على التأخير محمول على الجمع فعلا لا وقتا

9-فقہ حنفی کے رو سے ایسا کرنا درست نہیں۔

شامی (3/123) میں ہے:

وكونه هو أو أكثره (أمام المصلي) ‌وكونه ‌للقبلة فلا تصح على غائب ومحمول على نحو دابة.

بدائع الصنائع (2/48) میں ہے:

قال أصحابنا: ‌لا ‌يصلى ‌على ‌ميت غائب، وقال الشافعي: يصلى عليه استدلالا بصلاة النبي  صلى الله عليه وسلم  على النجاشي وهو غائب، ولا حجة له فيه لما بينا على أنه روي أن الأرض طويت له، ولا يوجد مثل ذلك في حق غيره.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved