- فتوی نمبر: 33-267
- تاریخ: 28 جون 2025
- عنوانات: حظر و اباحت > لباس و وضع قطع
استفتاء
مفتی صاحب اصلی ریشم جو کیڑے سے بنتا ہے اس کے گدے،تکیے،پردے اوررضائیاں وغیرہ بنانا اور ان کا استعمال کرنامردوں اور عورتوں کے لیے کیسا ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
ریشم کے گدے، تکیے اور پردے بنانے اور استعمال کرنے میں مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے گنجائش ہے تاہم بہتر یہ ہے کہ ان کے استعمال سے گریز کیا جائے البتہ ریشم کی رضائیاں مردوں کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں۔
توجیہ: ریشم کا پہننا مردوں کے لیے بالاتفاق نا جائز ہے البتہ پہننے کے علاوہ دیگر استعمال کے بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور ائمہ کا اختلاف ہے اس لیے بہتر یہ ہے کہ اس سے گریز کیا جائے تاہم استعمال کی گنجائش بھی ہے اور رضائی اوڑھنا پہننے میں داخل ہے اس لیے اس کا استعمال جائز نہیں ہوگا۔
بدائع الصنائع (5/ 131)میں ہے:
هذا الذي ذكرنا حكم لبس الحرير(فأما) حكم التوسد به والجلوس والنوم عليه فغير مكروه عند أبي حنيفة عليه الرحمة وعند أبي يوسف ومحمد مكروه (لهما) إطلاق التحريم الذي روينا من غير فصل بين اللبس وغيره ولأن معنى التزين والتنعم كما يحصل باللبس يحصل بالتوسد والجلوس والنوم ولأبي حنيفة ما روى أنه كان على بساط عبد الله بن عباس رضى الله عنهما مرفقة من حرير وروى أن أنسا رضى الله عنه حضر وليمة فجلس على وسادة حرير عليها طيور فدل فعله رضى الله عنه على رخصة الجلوس على الحرير وعلى الوسادة الصغيرة التى عليها صورة وبه تبين أن المراد من التحريم في الحديث تحريم اللبس فيكون فعل الصحابي مبينا لقول النبي عليه الصلاة والسلام لا مخالفا له والقياس باللبس غيرسديد لأن التزين بهذه الجهات دون التزين باللبس لأنه استعمال فيه إهانة المستعمل بخلاف اللبس فيبطل الاستدلال به.
ہندیہ(5/ 331)میں ہے:
استعمال اللحاف من إبريسم لا يجوز؛ لأنه نوع لبس.
الکلام الجلیل فیما یتعلق بالمندیل لمولانا عبد الحی اللکنوی(ص:64) میں ہے:
لو كان المنديل من الحرير يحرم استعماله ووضعه على الكتفين لبسا كسائر الثياب الملبوسة لما صرحوا من حرمة لبس الحرير مطلقا ولو حكما حتى لم يجوزوا استعمال اللحاف من الإبريسم.
لسان العرب (9/ 314)
لحف: اللحاف والملحف والملحفة: اللباس الذي فوق سائر اللباس من دثار البرد ونحوه؛ وكل شيء تغطيت به فقد التحفت به. واللحاف: اسم ما يلتحف به.
ہندیہ(5/316)میں ہے:
لا بأس بالقراءة مضطجعا إذا أخرج رأسه من اللحاف؛ لأنه يكون كاللبس وإلا فلا كذا في القنية.
شامی (2/85) میں ہے:
كما لو دخل في كيس مثلا وصلى فيه، فإن الظاهر أنه لا تصح صلاته بخلاف ما لو أخرج رأسه من الكيس وصلى لأنه يصير مستورا ………. ثم رأيت في الحاوي والزاهدي من كتاب الكراهية والاستحسان ما نصه: والمريض إذا لم يخرج رأسه من اللحاف لا تجوز صلاته لأنه كالعاري اهـ أي إذا صلى تحت اللحاف وهو مكشوف العورة بالإيماء لا تصح لأنه غير مستور العورة.
آپ کے مسائل اور ان کا حل(8/367) میں ہے:
سوال: لحافوں کے اوپر عام طور پر سلک لگی ہوتی ہے حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ “مردوں کو ریشم کے کپڑے پہننا تو کیا اس پر بیٹھنا بھی حرام ہے” تو کیا مرد حضرات یہ لحاف اوڑھ سکتے ہیں؟
جواب: خالص ریشم مردوں کے لیے حرام ہے لیکن یہ سلک اور آج کل کے کپڑے مصنوعی ریشے سے بنتے ہیں اصلی ریشم سے نہیں، اس مصنوعی ریشم کا پہننا جائز ہے۔
فتاوی خلیلیہ(1/315)میں ہے:
…………………… اب اختلاف اس میں ہے کہ مندیل ملبوس میں ہے یا غیر ملبوس میں آپ نے مولانا عبدالحی سے وضع علی الکتفین کو ملبوس لکھا ہے مولانا کی رائے میں یہ لبس ہے مگر بندہ کی رائے میں یہ لبس میں داخل نہیں اور ریشمی لحاف قطعا لبس میں داخل ہے اور بعد تسلیم مولانا لکھنوی مرحوم نے وضع علی الکتفین کو لبس قرار دیا ہے جیب میں اور ہاتھ میں رکھنا قطعا لبس نہیں ، چاندی سونے کا استعمال اور لبس ناجائز ہے لیکن جیب میں اور ہاتھ میں رکھنا ممنوع نہیں ……………. الخ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved