• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

سوار ہوکر طواف وسعی کرنے کی صورت میں دم کا حکم

استفتاء

ایک شخص نے تھوڑی دیر قبل اپنا عمرہ کیا جو کہ پیدل چل کر کیا بعد میں اس کے تایا نے عمرہ کرنا چاہا جو کہ بوڑھے ہیں اور وہیل چیئر پر ہیں۔ اس شخص نے بھی جدہ جا کر دوبارہ احرام باندھ لیا اور اپنے تایا کو عمرہ کروانے لے آیا اس وقت اس نے سوچا کہ میرے سے وہیل چیئر چلائی نہ جائے گی تو اس نے الیکٹرک سکوٹر لے لیا جس پر پیچھے تایا کو بٹھا کر طواف و سعی کر لی    تو کیا سوار ہو کر اپنا عمرہ کرنے سے اس پر کوئی دم تو نہیں آیا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ایسے شخص کے لیے حکم یہ ہے کہ اگر وہ مکہ میں ہی ہے تو اس پر طواف اور سعی کا اعادہ کرنا واجب ہے اور اگر واپس اپنے گھر آ گیا ہے تو اس پر دو الگ الگ دم واجب ہوں گے ایک دم طواف کا ،اور دوسرا سعی کا۔

توجیہ :بظاہر مذکورہ صورت میں اگر خود اکیلے طواف کرتا تو پیدل کر سکتا تھا سوار ہو کر طواف دوسرے کی وجہ سے کیا ہے اور دوسرے کی وجہ سے سوار ہو کر طواف کرنا عذر میں داخل نہیں لہذا اس شخص پر طواف اور سعی کی وجہ سے الگ الگ دم لازم ہو گا۔

بدائع الصنائع (2/130) میں ہے:

‌ومن ‌واجبات ‌الطواف أن يطوف ماشيا لا راكبا إلا من عذر حتى لو طاف راكبا من غير عذر فعليه الإعادة ما دام بمكة، وإن عاد إلى أهله يلزمه الدم.

مناسک ملا علی قاری (ص:152) میں ہے:

(الرابع) أى من الواجبات (المشى فيه القادر) ففى الفتح المشى واجب عندنا وعلى هذا نص المشايخ ………. (فلو طاف) أى فى طواف يجب المشى فيه (راكبا أو محمولا أو زحفا) ……. (بلا عذر فعليه الاعادة) أى ما دام بمكة (أو الدم) أى لتركه الواجب.

مناسک ملا علی قاری (ص:178) میں ہے:

(والمشى فيه فإن سعى راكبا أو محمولا او زحفا) أى بجميع أنواعه مما لا يطلق عليه أنه مشى بغير عذر فعليه دم.

معلم الحجاج (ص:154) میں ہے:

واجبات طواف ……….. جو شخص پیدل چلنے پر قادر ہو اس کو پیادہ طواف کرنا۔

معلم الحجاج (ص:183) میں ہے:

پیدل سعی کرنا اگر کوئی عذر نہ ہو،  اگر بلا عذر کے کوئی شخص  سوار ہوکر سعی کرے گا تو دم واجب ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved