• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

خاوند کی اجازت کے بغیر اس کے پیسے استعمال کرنا

استفتاء

ایک صاحب مالدار آدمی ہیں لیکن گھر کے  خرچ میں بہت تنگدلی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

ان کے سب بہن بھائی بھی خوشحال اور اپنی بیوی بچوں پر کھلا خرچ کرتے ہیں ان کی اہلیہ اور بچے جب دوسرے رشتہ داروں کو دیکھتے ہیں تو  انہیں بہت تکلیف ہوتی ہے کہ ہمارے والد صاحب حیثیت ہونے کے باوجود خرچ نہیں کرتے۔ شروع شروع میں اہلیہ ضد اور بحث کے ذریعے بات منوانے کی کوشش کرتی رہی جس سے گھر میں جھگڑا  بھی ہوجاتا تھا پھر اہلیہ نے خاوند کی اجازت کے بغیر پیسے لینے شروع کر دیے اور ان پیسوں کو گھر کی ضروریات، بچوں کی ضروریات اور فرمائشوں کے لیے استعمال کیا۔جیسے بچے کو سائیکل لے کر دے دی اور بچے کو کرایہ کے لیے رقم دے دی ۔گھر کے کارپٹ  بہت پرانے تھے وہ تبدیل کر دیے حتی کہ اپنی زکوۃ بھی اسی  رقم سے ادا کرتی رہی  اور اب قربانی کے لیے بھی اس میں سے کچھ رقم شامل کرنا چاہتی ہے۔اہلیہ کا ایک مکان ہے جس سے کچھ کرایہ  آتا ہے لیکن وہ رقم بھی گھر میں اور بچوں پر خرچ ہو جاتی ہے۔

اہلیہ نے بچے کے تراویح کے ختم قران کے موقع پر سب مدرسوں والوں کی دعوت بھی شوہر کی رقم سے ہی کی۔وہ اس رقم کو اپنے  بہن بھائیوں پر خرچ کرنے سے پرہیز کرتی ہیں۔پوچھنا یہ ہے کہ خاوند کی اجازت کے بغیر مذکورہ بالا جگہوں میں رقم لگانا کیسا ہے؟  اگر یہ جائز نہیں تو جو لگا چکی  ہے اس  کا کیا حکم ہے؟ وہ کہتی ہیں کہ اگر میں پیسے نہ لوں تو بچے بہت تنگ کرتے ہیں یہاں تک کہ ڈپریشن ہونے لگتی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں بیوی اپنی اور بچوں (بچوں میں اگر لڑکے ہوں تو صرف نابالغ لڑکوں)  کی بنیادی  ضروریات کے لیے شوہر کے مال میں سے بغیر اجازت کے رقم لے سکتی ہے البتہ بنیادی  ضرورت سے زائد اخراجات مثلاً اپنی زکوۃ اور قربانی کے لیے اور بچوں کی فرمائشوں کے لیے  شوہر کی اجازت کے بغیر اس کے مال سے کچھ رقم   لینا جائز نہیں ،جو رقم ان چیزوں کے لیے لے چکی ہے وہ شوہر کو بتلا کر معاف کروا لے یا اسے واپس کردے ، واپس کرنے کے لیے بتانا ضروری نہیں ہے۔

صحیح بخاری (2/1058) میں ہے:

عن ‌عائشة رضي الله عنها: «قالت هند أم معاوية لرسول الله صلى الله عليه وسلم: إن أبا سفيان رجل شحيح، ‌فهل ‌علي ‌جناح أن آخذ من ماله سرا؟ قال: خذي أنت وبنوك ما يكفيك بالمعروف.»

ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ہندہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ ابو سفیانؓ  بخیل آدمی ہے  تو کیا میرے لیے ان  کے مال سے چھپا کر کچھ  لینے  میں کوئی حرج  ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم  اور تمہارے بیٹے بقدرِ کفایت دستور کے موافق لے لو۔

عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری (21/21) میں ہے:

حدثنا محمد بن المثنى حدثنا يحيى عن هشام قال أخبرني أبي عن عائشة أن هندا بنت عتبة قالت: يا رسول الله! ‌إن ‌أبا ‌سفيان ‌رجل ‌شحيح وليس يعطيني ما يكفيني وولدي إلا ما أخذت منه، وهو لا يعلم. فقال: خذي ما يكفيك وولدك بالمعروف.

قوله: (شحيح) أي: بخيل، وفي الرواية المتقدمة: رجل مسيك. قوله: (وهو لا يعلم) ، الواو فيه للحال، وقد احتج به من قال: تلزمه نفقة ولده وإن كان كبيرا أورد بأنها واقعة عين ولا عموم في الأفعال، ولعل الولد فيه كان صغيرا وكبيرا زمنا عاجزا عن الكسب، وبعض المالكية. قال: تلزمه إذا كان زمنا مطلقا.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved