- فتوی نمبر: 33-277
- تاریخ: 30 جون 2025
- عنوانات: عقائد و نظریات > متفرقات عقائد و نظریات
استفتاء
قیامت کے دن قبروں سے اٹھائے جانے کے وقت سے لے کر جنت میں داخل ہونے تک کے جتنے بھی حالات پیش آئیں گے سارے انسان یعنی انبیاء اور غیر انبیاء سب ان حالات کا سامنا کریں گے جیسا کہ سورج کا سوا نیزے پر ہونا،پسینے میں ڈوبنا،نفسی نفسی کی پکار وغیرہ۔لیکن ان حالات کا انبیاء، اولیاء کے ساتھ پیش آنا عدل وانصاف کے خلاف نظر آتا ہے قرآنی آیات کی روشنی میں بھی اورعقلی طور پر بھی۔قرآن پاک میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
الا ان اولياء الله لا خوف عليهم ولا هم يحزنون.
اسی طرح اور جتنی دیگر آیات ہیں جن میں نیک اعمال کرنے والوں کے ساتھ اچھے سلوک کا وعدہ ہے۔عقلی طور پر اس طرح کہ دنیا میں جب کسی کے ساتھ وعدہ کیا جاتا ہے کہ جس کو پورا کرنے کی صورت میں کوئی سزا نہ دی جائے گی تو انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام تو جنتی ہیں اور انہوں نے وعدہ کما حقہ پورا کیا تو ان کے ساتھ قیامت کے دن کیسے وہی معاملہ کیا جائے جو گنہگاروں کے ساتھ کیا جائے گا؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اللہ تعالی اپنے نیک یا بدبندوں کے ساتھ جو کچھ بھی کریں چاہے سب کو عذاب دیں یا سب کو معاف کریں اس میں سے کچھ بھی عدل و انصاف اور عقل کے خلاف نہیں کیونکہ سب اللہ کے بندے اور اس کی مخلوق اور اس کی مملوک ہیں اور خالق اور مالک کو اپنی مخلوق اور مملوک میں ہر طرح کا اختیار حاصل ہے۔
سورۃ الانبیاء (آیت نمبر 23) میں ہے:
لا يسأل عما يفعل وهم يسألون
ترجمہ: وہ جو کچھ کرتا ہے اس کا کسی کو جواب دہ نہیں اور ان سب کو جواب دہی کرنی ہوگی۔
تشریح: یعنی “خدا” تو اس ہستی کا نام ہے جو قادر مطلق ہے۔ جو قادر مطلق اور مختار کل ہو اس کی قدرت و مشیت کو روکنا تو کجا کوئی پوچھ پاچھ بھی نہیں کر سکتا کہ آپ نے فلاں کام اس طرح کیوں کیا؟ ہاں اس کو حق ہے کہ وہ ہر شخص سے مؤاخذه اور باز پرس کر سکتا ہے (تفسیر عثمانی 555/2)
سورۃ المائدہ (آیت نمبر 118) میں ہے:
ان تعذبهم فانهم عبادك وان تغفر لهم فانك انت العزيز الحكيم
ترجمہ: اگر آپ ان کو سزا دیں تو یہ آپ کے بندے ہیں ہی اور اگر آپ انہیں معاف فرما دیں تو یقینا آپ کا اقتدار بھی کامل ہے حکمت بھی کامل۔
تشریح: یعنی آپ اپنے بندوں پر ظلم اور بے جا سختی نہیں کر سکتے اس لیے اگر ان کو سزا دیں گے تو عین عدل و حکمت پر مبنی ہوگی اور فرض کیجئے معاف کر دیں تو یہ معافی بھی از راہ عجز و سفہ نہ ہوگی۔ چونکہ آپ عزیز (زبردست اور غالب) ہیں اس لیے کوئی مجرم آپ کے قبضے و قدرت سے نکل کر بھاگ نہیں سکتا کہ آپ اس پر قابو نہ پا سکیں۔ اور چونکہ حکیم (حکمت والے) ہیں۔ اس لیے یہ بھی ممکن نہیں کہ کسی مجرم کو یوں ہی بے موقع چھوڑ دیں۔ بہرحال جو فیصلہ آپ ان مجرمین کے حق میں کریں گے وہ بالکل حکیمانہ اور قادرانہ ہوگا۔ (تفسیر عثمانی،1/591)
البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے نیک بندوں کے ساتھ جو وعدے فرمائے ہیں اللہ تعالی اپنے فضل سے ان وعدوں کو ضرور پورا فرمائے گا۔
سورۃ الزمر آیت (نمبر 20)میں ہے:
لكن الذين اتقوا ربهم لهم غرف من فوقها غرف مبنيه تجري من تحتها الانهار وعد الله لا يخلف الله الميعاد
ترجمہ: البتہ جنہوں نے اپنے پروردگار کا خوف دل میں رکھا ہے ان کے لیے اوپر تلے بنی ہوئی اونچی اونچی عمارتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں یہ اللہ کا وعدہ ہے اللہ کبھی وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔
اور ان وعدوں کے پیش نظر آخرت میں پیش آنے والے حالات کا سامنا سب کے لیے ایک جیسا نہ ہوگا بلکہ اللہ تعالی اپنے وعدوں کے مطابق اپنے نیک بندوں کو عذاب اور سختی والے حالات سے محفوظ فرمائیں گے۔
سورۃ الزمر آیت نمبر 61 میں ہے:
وينجي الله الذين اتقوا بمفازتهم لا يمسهم السوء ولا هم يحزنون.
ترجمہ: اور جن لوگوں نے تقوی اختیار کیا ہے اللہ ان کو نجات دے کر ان کی مراد کو پہنچا دے گا انہیں کوئی تکلیف چھوئے گی بھی نہیں اور نہ انہیں کسی بات کا غم ہوگا۔
سورۃ الانبیاء (آیت نمبر 101-102) میں ہے:
ان الذين سبقت لهم منا الحسنى اولئك عنها مبعدون لا يسمعون حسيسها وهم في ما اشتهت انفسهم خالدون .
ترجمہ: البتہ جن لوگوں کے لیے ہماری طرف سے بھلائی پہلے سے لکھی جا چکی ہے یعنی نیک مؤمن ان کو اس جہنم سے دور رکھا جائے گا وہ اس کی سرسراہٹ بھی نہیں سنیں گے اور وہ ہمیشہ اپنی من پسند چیزوں کے درمیان رہیں گے۔
صحیح بخاری(رقم الحدیث:6806) میں ہے:
عن أبي هريرة : عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «سبعة يظلهم الله يوم القيامة في ظله يوم لا ظل إلا ظله: إمام عادل، وشاب نشأ في عبادة الله، ورجل ذكر الله في خلاء ففاضت عيناه، ورجل قلبه معلق في المسجد، ورجلان تحابا في الله، ورجل دعته امرأة ذات منصب وجمال إلى نفسها قال: إني أخاف الله، ورجل تصدق بصدقة فأخفاها حتى لا تعلم شماله ما صنعت يمينه
ترجمہ: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سات قسم کے لوگوں کو اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا، اُس دن جب اُس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا:انصاف کرنے والا حکمران،وہ نوجوان جس نے اپنی جوانی اللہ کی عبادت میں گزاری،وہ شخص جو تنہائی میں اللہ کو یاد کرے اور اُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلیں،وہ شخص جس کا دل مسجد سے وابستہ ہو،دو ایسے آدمی جو صرف اللہ کے لیے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہوں، ملتے بھی اللہ کے لیے ہوں اور جدا بھی اللہ کے لیے،وہ شخص جسے کوئی خوبصورت اور باعزت عورت گناہ کی دعوت دے اور وہ کہے: میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور وہ شخص جو اس طرح صدقہ کرے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی علم نہ ہو کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved