- فتوی نمبر: 34-202
- تاریخ: 16 دسمبر 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > نکاح کا بیان > ثبوت نسب کے احکام
استفتاء
“مرد مشرق میں عورت مغرب میں نکاح ہوگیا، میاں بیوی کے ملے بغیر بچہ پیدا ہوگیا تو حرامی نہیں کرامتی سمجھا جائے گا۔[در مختار]
اس مسئلہ کی تحقیق مطلوب ہے۔ یہ سوشل میڈیا پر بہت زیادہ زیر بحث آرہا ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ میاں بیوی کے ملے بغیر بچہ پیدا ہو گیا تو حرامی نہیں کرامتی سمجھا جائے گا بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جب نکاح کے چھ ماہ یا اس سے زیادہ عرصہ کے بعد بچہ پیدا ہو اور شوہر اس بچہ کا اپنے سے ہونے کا انکار نہ کرے تو قانون یہ نہ کہے گا کہ یہ بچہ اس شوہر کا نہیں بلکہ قانون اس بچے کو اس شوہر کا ہی سمجھے گا جب تک وہ خود انکار نہ کرے اور قانون اس کی جانچ پڑتال میں نہ پڑے گا کہ میاں بیوی کا ملاپ ہوا یا نہیں؟ ہوا تو کیسے ہوا؟ وغیرہ وغیرہ کیونکہ یہ میاں بیوی کا نجی (پرائیویٹ ) معاملہ ہے جس میں قانون کو مداخلت کا حق نہیں کیونکہ اگر میاں بیوی کا ملاپ بھی ہوا ہو تو یہ یقینی نہیں کہ پیدا ہونے والا بچہ اسی ملاپ کا نتیجہ ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ یہ بچہ میاں بیوی کے علاوہ کسی اور کے ملاپ کا نتیجہ ہو لہذا اس طرح کے معاملات میں اگر قانون کو مداخلت کا حق دیا جائے اور بچوں کا مثلا ڈی این اے ٹیسٹ کروایا جائے تو نہ معلوم کتنے لوگوں کے پردے فاش ہوں گے۔
تاہم واقعتا اگر شوہر کا بیوی سے ملاپ نہ ہوا ہو تو اس کے لیے شرعاً خاموش رہنا اور اس بچے کا اپنے سے ہونے کا انکار نہ کرنا شرعاً جائز نہیں یعنی عند اللہ اس کی پکڑ ہوگی۔
باقی رہا یہ اشکال کہ میاں بیوی کی ملاقات کا امکان نہیں ہے تو نسب کیسے ثابت ہو گیا؟ تو اس کا جواب یہ کہ امکان بصورت کرامت و استخدام موجود ہے مثلا کوئی جن کسی آدمی کو مسافت بعیدہ کے باوجود چند گھنٹوں میں اس کی بیوی تک پہنچا دے جیسا کہ قرآن میں عفریت جن کے بارے میں ہے کہ اس نے کہا کہ میں بلقیس کا تخت آپ کے اپنی جگہ سے اٹھنے سے پہلے لا سکتا ہوں، یہ استخدام ہے، اور جس شخص کے پاس کتاب کا علم تھا اس نے کہا کہ میں پلک جھپکنے سے پہلے تخت لا سکتا ہوں اور وہ لے بھی آیا، یہ کرامت ہے۔
فتح القدیر(4/349) میں ہے :
(ومن قال إن تزوجت فلانة فهي طالق فتزوجها فولدت ولدا لستة أشهر من يوم تزوجها فهو ابنه وعليه المهر) أما النسب فلأنها فراشه، لأنها لما جاءت بالولد لستة أشهر من وقت النكاح فقد جاءت به لأقل منها من وقت الطلاق فكان العلوق قبله في حالة النكاح والتصور ثابت بأن تزوجها وهو يخالطها فوافق الإنزال النكاح والنسب يحتاط في إثباته.
(قوله ومن قال: إن تزوجت فلانة أو امرأة فهي طالق…… وحاصله أن الثبوت يتوقف على الفراش وهو يثبت مقارنا للنكاح المقارن للعلوق فتعلق وهي فراش فيثبت نسبه ……. ولاستبعاد هذا الفرض قال بعض المشايخ: لا يحتاج إلى هذا التكلف بل قيام الفراش كاف، ولا يعتبر إمكان الدخول بل النكاح قائم مقامه كما في تزوج المشرقي بمغربية.
والحق أن التصور شرط، ولذا لو جاءت امرأة الصبي بولد لا يثبت نسبه، والتصور ثابت في المغربية لثبوت كرامات الأولياء والاستخدامات فيكون صاحب خطوة أو جنيا.
مبسوط سرخسی(17/156) میں ہے :
ومن أصلنا في النكاح الجائز أن النسب ثبت بمجرد الفراش الثابت بالنكاح، ولا يشترط معه التمكن من الوطء، وعلى قول الشافعي بمجرد النكاح بدون التمكن من الوطء لا يثبت النسب فكذلك في الفاسد حتى قالوا فيمن تزوج امرأة، وبينهما مسيرة سنة فجاءت بولد لستة أشهر عندنا يثبت النسب، وعنده لا يثبت ما لم يكن لأكثر من ستة أشهر حتى يتحقق التمكن من الوطء بعد العقد………
ولأنها [لعله “و لنا انها”] جاءت به على فراشه في حال يصلح أن يكون منسوبا إليه فيثبت النسب منه كما لو تمكن من وطئها، وتصادقا أنه لم يطأها، وهذا لأن النكاح ما شرع إلا للاستفراش ومقصود النسل فيثبت الفراش بنفسه، ولكن في حق من يصلح أن يكون والدا، والصغير لا يصلح أن يكون والدا فلم يعمل في النسب لانعدام المحل له فأما الغائب يصلح أن يكون والدا كالحاضر فيثبت له الفراش المثبت للنسب بنفس النكاح، وكما أن حقيقة العلوق من مائه لا يتوقف عليها فكذلك التمكن من الوطء حقيقة لا يمكن الوقوف عليه لاختلاف طبائع الناس فيه وفي الأوقات، فيجب تعليق الحكم بالنسب الظاهر، وهو النكاح الذي لا يعقد شرعا إلا لهذا المقصود، ومتى قام النسب الظاهر مقام المعنى الخفي سقط اعتبار المعنى الخفي ودار الحكم مع النسب الظاهر وجودا وعدما، وهو أصل كبير في المسائل كما أقيم السفر المراد مقام حقيقة المشقة في إثبات الرخصة بسبب السفر وأقيم تجدد الملك في الأمة مقام اشتغال رحمها بماء الغير في تجدد وجوب الاستبراء ولأن الوطء، والتمكن إنما كان معتبرا لمعنى الماء، وقد سقط اعتبار حقيقة الماء لإثبات النسب فيسقط ما كان معبرا لأجله أيضا.
العرف الشذی (402/2) میں ہے:
قلنا: إن رجلاً شرقياً تزوج امرأة غربيةً فأتت بالولد بعد ستة أشهر ولا يتصور الجمع بينهما فالولد عند أبي حنيفة للفراش أي للزوج المشرقي……..أقول: إن من استبعد مسألة أبي حنيفة فقد غفل عن باب مستقل في الفقه وهو باب اللعان، فنقول: إن ولدت المغربية ولم ينف المشرقي ولده، فكيف يمكن لأحد أن ينفي الولد، وإذا علم الزوج أنه ليس من نطفتي فعليه أن يلاعن، وروي عن أبي حنيفة أن الرجل إذا علم أن الولد ليس من نطفتي فعليه أن يلاعن وجوباً عليه ديانة، نعم لا حق للقاضي في الاستفسار قبل رفع الأمر إليه، ومسألة وجوب اللعان ذكره في الدر المختار ص (267) ، الإقرار بالولد الذي ليس منه حرام كالسكوت إلخ فإذن امتناعه عن اللعان يوجب لحوق الولد بأبيه وثبوت نسبه منه شرعاً، وروي عن أبي حنيفة في رد المحتار أن المولى إذا علم أن ولد أمته من نطفته فيحرم عليه السكوت والامتناع عن الدعوة والإقرار ديانة، وأما قضاءً فلا يثبت النسب إلا بالإقرار والدعوة فصار حاصل المسألة أنه إذا علم أن الولد ليس منه فيحرم عليه الكف عن اللعان ديانة وإذا لم يلاعن فليس لأحد أن ينفي ولده.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved