- فتوی نمبر: 24-215
- تاریخ: 23 اپریل 2024
- عنوانات: مالی معاملات > مضاربت
استفتاء
مضاربت کے باب میں لکھا ہوا ہے کہ اگر مضارب شہر کے اندر سفر کرے تو خرچہ اسی کے ذمے ہو گا ،مال مضاربت سے نہیں لے سکتا ۔اب اگر مضارب کراچی میں مثلاً مختلف جگہوں پر جاکر مال فروخت کرتا ہے ،ان کے آرڈر لینے کے لیے جاتا ہے ،مارکیٹنگ ،آرڈر ٹیکنگ اور سیل کے اخراجات اتنے ہیں کہ اگر ان کو مضارب کے ذمے ڈالا جائے تو اخراجات مضارب کی نفع کی مقدار سے بڑھ جاتے ہیں ،کیا اس صورت میں وہ شہر کے سفری اخراجات بھی مال مضاربت سے لے سکتا ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں مضارب سفری اخراجات وصول کر سکتا ہے ۔
توجیہ: عام طور سے مسئلہ یہی لکھا ہے کہ مضارب اپنے شہر میں سفری اخراجات نہیں لے سکتا لیکن یہ بات اس وقت کی ہے جب شہر چھوٹے ہوتے تھے اور آمدورفت کی مد میں اخراجات نہیں ہوتے تھے اب چونکہ شہر بڑے ہو گئے ہیں جس میں بعض اوقات ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں کافی خرچہ ہوتا ہے نیز اب عرف میں بھی یہ خرچے عام طور پر مال مضاربت میں سے سمجھے جاتے ہیں اس لیےایسی صورت میں سفری اخراجات وصو ل کرنے کی اجازت ہے ۔
بدائع الصنائع(5/148)میں ہے:
أما الوجوب فلأن الربح في باب المضاربة يحتمل الوجود والعدم والعاقل لا يسافر بمال غيره لفائدة تحتمل الوجود والعدم مع تعجيل النفقة من مال نفسه فلو لم تجعل نفقته من مال المضاربة لامتنع الناس من قبول المضاربات مع مساس الحاجة إليها فكان إقدامهما على هذا العقد والحال ما وصفنا إذنا من رب المال للمضارب بالإنفاق من مال المضاربة فكان مأذونا في الإنفاق دلالة فصار كما لو أذن له به نصا ولأنه يسافر لأجل المال لا على سبيل التبرع ولا ببدل واجب له لا محالة فتكون نفقته في المال
مسائل بہشتی زیور(2/291)میں ہے:
مضارب اگر اپنے وطن میں کاروبار کرے تو کھانا کپڑا مضاربت کے مال سے نہیں لے سکتا ،البتہ سواری کا خرچہ اس صورت میں لے سکتا ہے جب شہر بڑا ہو اور ایک حصے سے دوسرے حصے میں آنے جانے میں کچھ خرچ ہوتا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved