• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

کیا پانچ گھونٹ سے کم دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت ہوجاتی ہے، ’’دارالافتاء النورین، کراچی‘‘ کے ایک فتویٰ کی تصدیق

استفتاء

مفتی صاحب ہم نے دار الافتاء النورین، بلاک ۳، گلشن اقبال کراچی سے ایک مسئلہ کے بارے میں فتویٰ لیا ہے، کیا یہ فتویٰ درست ہے؟ یہ استفتاء بمع جواب مندرجہ ذیل ہے:

استفتاء                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                          الرقم:00128

علماء کرام کیا فرماتے ہیں اس بارے میں کہ میری والدہ نے میرے ماموں کی بیٹی کو دودھ پلایا اور اس وقت حالت کچھ یوں تھی کہ میری ممانی کی طبیعت بہت خراب تھی جس کی وجہ سے وہ اپنی بیٹی کو دودھ نہیں پلا رہی تھیں، تو فقط جان بچانے کے لیے میری والدہ نے صرف ایک بار تھوڑا سا دودھ پلایا، اب سوال یہ ہے کہ میرے ماموں کی بیٹی کیا میری محرم ہے یا نامحرم ہیں؟ میرے گھر میں میری ان سے شادی کی بات چل رہی ہے اور میں بھی ان سے شادی کرنا چاہتا ہوں، کیا میرا ان سے نکاح کرنا درست ہے یا نہیں؟ برائے مہربانی شرعی رہنمائی فرمادیجئے۔

الجواب [از دار الافتاء النورین]

الحمد لله، امابعد:

آپ کا سوال بغور پڑھنے کے بعد نتیجہ درج ذیل ہے:

اول:

اس مسئلے میں علمائے کرام کے دو موقف ہیں کہ آیا تھوڑا سا بھی دودھ پلانے سے حرمت رضاعت ثابت ہوتی ہے یا نہیں، جانبین کے پاس اپنے دلائل ہیں، علماء کے ایک طبقے کا موقف یہ ہے کہ دودھ کم پلایا جائے یا زیادہ دونوں صورتوں میں حرمت رضاعت ثابت ہوجائے گی اور جب حرمت رضاعت ثابت ہوجائے تو وہ لڑکی آپ کی دودھ شریک بہن یعنی محرم ہوجائیں گی، ان کی دلیل قرآن پاک کے مطلق سے استدلال ہے۔ ہمارے نزدیک راجح قول یہ ہے کہ ایک یا دو بار دودھ پلانے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی (اس کی تفصیل آگے آتی ہے)

قال ابن قدامة رحمه الله تعالی:قال أبوالقاسم رحمه الله: “والرضاع الذى لا يشک في تحريمه، أن يکون خمس رضعات فصاعدا”

في هذه المسالة مسالتانإحداهما: أن الذى يتعلق به التحريم خمس رضعات فصاعدا، هذا الصحيح في المذهب، وروى هذا عن عائشه، وابن مسعود، وابن الزبير، وعطاء، وطاوس، وهو قول الشافعى، … من انتهى “المغنى”(11/310)

ابن قدامہ فرماتے ہیں:

ابو قاسم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ایسی رضاعت جس کے ذریعے حرام ہوجانے میں کوئی شک نہ ہو، پانچ بار ہے (یعنی کہ کم از کم پانچ بار دودھ پلانے سے حرمت رضاعت ثابت ہوتی ہے) اور یہ موقف حضرت عائشہؓ، ابن مسعودؓ، ابن زبیرؓ، حضرت عطا، حضرت طاوس سے روایت کیا گیا ہے اور یہی امام شافعی کا بھی قول ہے۔

اس کی دلیل مسلم شریف کی حدیث پاک ہے:عن عائشه، انها قالت: (کان فيما انزل من القرآن: عشر رضعات معلومات يحرمن، ثم نسخن، بخمس معلومات، فتوفى رسول الله صلي الله عليه و سلم، وهن فيما يقرأ من القرآن) رواه مسلم(1452)

حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ اس بارے میں جو قرآن میں نازل کیا گیا وہ دس مقرر شدہ گھونٹ تھے جو حرام کر دیتے تھے پھر ان کو پانچ مقرر گھونٹوں سے منسوخ کر دیا گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات دے دی گئی اور یہ اسی طرح قرآن میں پڑھا جاتا ہے۔

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ کم از کم پانچ بار دودھ پلانے سے حرمت رضاعت ثابت ہوتی ہے اور اس صحیح حدیث کو قرآن پاک کی وضاحت سمجھ کر استدلال کرنا بالکل درست ہے۔

ثانی:

جب یہ ثابت ہوگیا کہ ایک یا دو بار دودھ پلانے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی تو یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ سائل کے ماموں کی بیٹی سائل کی محرم نہیں لہٰذا نکاح کرنا جائز ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ مسئلہ بھی قابل توجہ ہے کہ دونوں (لڑکا اور لڑکی) جب غیر محرم ہیں تو پردے کے احکامات بھی سخت ہونگے، ان کا نکاح سے پہلے ملنا جلنا، گھلنا ملنا، میسج پر یا بالمشافہ بات چیت میں بے تکلفی اختیار کرنا جائز نہیں۔ ان تمام امور سے بچنا فرض ہے بصورت دیگر سخت گناہگار ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ناجائز کاموں سے دور رکھے، آمین۔

تنبیہ:

ہمارے نزدیک اگرچہ پانچ بار سے کم میں حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی، لیکن ہمارے اس خطے یعنی پاکستان میں اکثر علماء کا موقف الگ(ایک بار سے بھی حرمت رضاعت ثابت ہوجانا) ہے لہذا اگر آپ اس خطے کے علماء سے فتویٰ طلب کریں گے تو زیادہ تر علماء حرمت رضاعت ثابت ہونے پر فتوی دیں گے۔ احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ اختلاف سے بچتے  ہوئے محرم سمجھ کر نکاح نہ کریں۔ لیکن اگر اس قول پر عمل کریں تو تمام متعلق لوگوں کو اس فتوے پر مطمئن کر لیں تاکہ مستقبل میں لڑائی جھگڑے کا دروازا نہ کھل سکے اور فتنے سے بجا جاسکے۔

واللہ تعالیٰ اعلم

کتبہ: (دستخط) محمد زین العابدین

تصدیق:الجواب الصحیح

(دستخط) محمد کامران

(بانی و مہتمم دار الافتاء النورین، النورین اکیڈمی)

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

فقہ حنفی کے مطابق مدت رضاعت (یعنی دو سال کی عمر) کے اندر بچی کا کسی عورت سے اتنا دودھ پینا ثابت ہوجائے جو معدے تک پہنچ جائے (چاہے ایک گھونٹ ہی کیوں نہ ہو) تو حرمتِ رضاعت ثابت ہوجاتی ہے یعنی دودھ پلانے والی کے اصول (باپ، دادا وغیرہ) وفروع (یعنی پیٹا، پوتا وغیرہ) میں سے کسی مرد کے لیے اس بچی سے نکاح کرنا جائز نہیں رہتا۔ لہٰذا مذکورہ صورت میں آپ کی والدہ نے جب آپ کے ماموں کی بیٹی کو بچپن میں دودھ پلایا تھا تو اس سے حرمت ثابت ہوگئی تھی اور وہ اسی وقت آپ کی رضاعی بہن بن گئی تھی اور جس طرح نسبی بہن سے نکاح کرنا جائز نہیں اسی طرح رضاعی بہن سے بھی نکاح کرنا جائز نہیں۔

دار الافتاء النورین کے مذکورہ فتویٰ میں ’’المغنی لابن قدامہ‘‘ کی جو عبارت ذکر کی گئی ہے اسی کے آگے یہ عبارت بھی ہے:وعن أحمد رواية ثانية أن قليل الرضاع وكثيره يحرم. وروي ذلك عن علي، وابن عباس، وبه قال سعيد بن المسيب، والحسن، ومكحول، والزهري، وقتادة، والحكم، وحماد، ومالك، والأوزاعي، والثوري، والليث، وأصحاب الرأي. وزعم الليث أن المسلمين أجمعوا على أن قليل الرضاع وكثيره يحرم في المهد ما يفطر به الصائم. واحتجوا بقول الله تعالى: {وأمهاتكم اللاتي أرضعنكم وأخواتكم من الرضاعة} [النساء: 23] . وقوله – عليه السلام -: «يحرم من الرضاعة ما يحرم من النسب» .[المغنی كتاب الرضاع: 7/357]

ترجمہ:امام احمد سے ایک دوسری روایت مروی ہے کہ دودھ چاہے تھوڑا پیا ہو یا زیادہ حرمت ثابت ہوجائے گی، اور بات حضرت علی، ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، اور سعید بن مسیب، حسن بصری، مکحول، زہری، قتادہ، حکم، حماد، امام مالک، امام اوزاعی، امام ثوری، امام لیث اور اصحاب الرائے رحمہم اللہ نے بھی یہی بات کہی ہے۔ اور امام لیث نے تو یہ دعویٰ کیا ہے کہ مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ دودھ بچپن میں تھوڑا پیا ہو یا زیادہ اتنی مقدار کہ جس سے روزہ افطار ہوسکے حرمت ثابت ہوجائے گی۔ ان حضرات کی دلیل قرآن کی یہ آیت ہے: [اور حرام کردی گئی ہیں تم پر] تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا اور تمہاری دودھ شریک بہنیں [اس آیت میں دودھ پینے کی مقدار کی کوئی قید نہیں]۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد کہ: رضاعت سے وہ رشتے حرام ہوجاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔

نیز عقود الجواہر المنیفہ (1/228، کتاب الرضاع)كی صحیح حدیث میں ہے:(ابوحنيفة) عن الحكم بن عتيبة عن القاسم بن مخيمرة عن شريح بن هانئ عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه أن النبي صلي الله عليه وسلم قال: يحرم من الرضاع ما يحرم من النسب قليله وكثيره.

ترجمہ:حضرت علی بن ابی طالب سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بچے نے دودھ تھوڑا پیا ہو یا زیادہ اس سے وہ رشتے حرام ہوجاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔

اس حدیث کے تمام راوی ثقہ اور معتبر ہیں۔ تکملہ فتح الملہم (1/38) میں ہے:قال العبد الضعيف: ورجال هذا الحديث كلهم ثقات، فأما الحكم بن عتيبة فهو من رجال الجماعة، ثقة ثبت فقيه، إلا أنه ربما دلس، وأما القاسم بن المخيمرة فهو ممن علق له البخاري وأخرج عنه الخمسة، ثقة فاضل، وأما شريح بن هانئ فهو الحارثي الكوفي من رجال الخمسة وأخرج عنه البخاري في الأدب المفرد، مخضرم ثقة، كما في التقريب، فالحديث صحيح واحتجاج أبي حنيفة به دليل على صحته.

سنن نسائی (2/68) میں ہے:أخبرنا محمد بن عبد الله بن بزيع قال حدثنا يزيد يعني بن زريع قال حدثنا سعيد عن قتادة قال: كتبنا إلى إبراهيم بن يزيد النخعي نسأله عن الرضاع فكتب ان شريحا حدثنا أن عليا وبن مسعود كانا يقولان يحرم من الرضاع قليله وكثيره

ترجمہ: حضرت قتادہ سے مروی ہے کہ ہم نے امام ابراہیم نخعی کو دودھ پینے سے حرمت ثابت ہونے کے بارے میں خط لکھا، انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں قاضی شریح نے بیان کیا ہے کہ حضرت علی اور ابن مسعود رضی اللہ عنہما دونوں یہ فرمایا کرتے تھے کہ دودھ پینے سے حرمت ثابت ہوجاتی ہے، چاہے تھوڑا دودھ پیا ہو یا زیادہ۔

عالمگیری (1/342، كتاب الرضاع) میں ہے:قليل الرضاع وكثيره اذا حصل في مدة الرضاع تعلق به التحريم كذا في الهداية

اگرچہ بعض روایات میں حرمت رضاعت ثابت ہونے کے لیے دودھ کی خاص مقداروں کا ذکر بھی ملتا ہے ،کسی روایت میں دس گھونٹ کا ذکر ہے، کسی میں پانچ کا تو کسی میں تین کا۔ لیکن آہستہ آہستہ خاص مقداروں کا حکم کثرت سے قلت کی طرف منتقل ہوتا گیا، دس گھونٹ کا حکم پانچ گھونٹ سے اور پانچ گھونٹ کا حکم تین گھونٹ سے منسوخ ہوا اور بالآخر تین گھونٹ کا حکم بھی منسوخ ہوگیا اور یہ حکم مطلق رہ گیا۔

امام ابوبکر جصاص رازی احکام القرآن (2/178) میں ایک روایت ذکر کرتے ہیں:حدث أبو الحسن الكرخي قال حدثنا الحضرمي قال حدثنا عبدالله بن سعيد قال حدثنا أبو خالد عن حجاج عن حبيب بن أبي ثابت عن طاوس عن ابن عباس أنه سئل عن الرضاع فقال إن الناس يقولون لا تحرم الرضعة ولا الرضعتان قال قد كان ذاك فأما اليوم فالرضعة الواحدة تحرمترجمہ: حضرت طاوس سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس سے رضاعت کے بارے میں سوال کیا گیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ ایک گھونٹ یا دو گھونٹ دودھ سے حرمت ثابت نہیں ہوتی؟ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ یہ حکم پہلے تھے، لیکن آج [حکم یہ ہے کہ] ایک گھونٹ بھی حرام کردے گا۔

فتح القدیر (3/431) میں ہے:التقدير مطلقا منسوخ ………  عن ابن مسعود – رضي الله عنه – قال: آل أمر الرضاع إلى أن قليله وكثيره يحرم. وروي عن ابن عمر أن القليل يحرم، وعنه أنه قيل له: إن ابن الزبير – رضي الله عنه – يقول: لا بأس بالرضعة والرضعتين. فقال: قضاء الله خير من قضاء ابن الزبير، قال تعالى {وأمهاتكم اللاتي أرضعنكم وأخواتكم من الرضاعة} [النساء: 23]ترجمہ: مقدار کا حکم مطلقا منسوخ ہے۔۔۔۔۔۔ حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ رضاعت کا حکم یہاں تک لوٹ آیا کہ تھوڑی [یعنی ایک گھونٹ] ہو یا زیادہ حرمت ثابت کردے گی۔ اور ابن مسعودؓ ہی سے مروی ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ ابن زبیرؓ فرماتے ہیں کہ دودھ کی ایک گھونٹ یا دو گھونٹ سے کوئی حرج نہیں [یعنی حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی] تو آپ نے فرمایا کہ اللہ کا فیصلہ ابن زبیرؓ کے فیصلے سے بہتر ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: [اور حرام کردی گئی ہیں تم پر] تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا اور تمہاری دودھ شریک بہنیں [اس آیت میں دودھ پینے کی مقدار کی کوئی قید نہیں]

ان دلائل کی روشنی میں معلوم ہوا کہ ’’دار الافتاء النورین‘‘ کے فتویٰ میں جو جواب لکھا گیا ہے کہ پانچ بار سے کم دودھ پینے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی، درست نہیں۔ اور اس پر دلیل کے طور پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی جو روایت پیش کی گئی ہے اس سے بھی سے استدلال درست نہیں کیونکہ :

  1. اس حدیث کو مذکورہ فتویٰ میں ذکر کردہ تشریح کے مطابق مان لیا جائے تو اس حدیث میں مذکور ان الفاظ سے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو پانچ گھونٹ والا حکم قرآن میں پڑھا جاتا تھا‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ پانچ گھونٹ کا حکم قرآن میں موجود ہے حالانکہ قرآن پاک میں پانچ گھونٹ کا ذکر کہیں نہیں بلکہ قرآن میں مقدار کا ذکر ہی نہیں جیسا کہ اوپر گزرچکا۔ لہٰذا ضرور یہ ماننا پڑے گا کہ یہ حکم بھی منسوخ ہوچکا تھا وگرنہ لازم آئے گا کہ معاذ اللہ قرآن پاک مکمل محفوظ نہیں جو کہ بالکل درست نہیں۔

لہٰذا اس حدیث کا صحیح مفہوم یہ ہے جو بعض محدثین نے بیان کیا ہے کہ اگرچہ پانچ گھونٹ سے حرمت رضاعت ثابت ہونے کا حکم بھی منسوخ ہوچکا تھا لیکن یہ حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخرِ حیات میں وفات کے بہت قریب منسوخ ہوا تھا جس کی وجہ سے بعض صحابہ کو اس کا منسوخ ہونا معلوم نہ تھا جس کی وجہ سے وہ اس کی تلاوت کرتے رہے لیکن جب ان کو اس حکم کے منسوخ ہونے کی اطلاع ملی تو انہوں نے اس سے رجوع کرلیا۔جیسا کہ امام نووی شافعیؒ فرماتے ہیں:معناه أن النسخ بخمس رضعات تأخر إنزاله جداً حتى أنه صلى الله عليه وسلم توفي وبعض الناس يقرأ خمس رضعات ويجعلها قرآناً متلواً لكونه لم يبلغه النسخ لقرب عهده. فلما بلغهم النسخ بعد ذلك رجعوا عن ذلك وأجمعوا على أن هذا لا يتلى

  1. پھر اس حدیث کے بارے میں ’’دار الافتاء النورین‘‘ کے فتویٰ میں یہ کہنا کہ ’’اس صحیح حدیث کو قرآن پاک کی وضاحت سمجھ کر استدلال کرنا بالکل درست ہے‘‘ یہ بھی درست نہیں کیونکہ وضاحت اس چیز کی کی جاتی ہے جس کا معنی واضح نہ ہو بلکہ مخفی ہو جبکہ قرآن پاک کی آیت معنی کے اعتبار سے بالکل واضح ہے کہ جس نے دودھ پلایا وہ ماں ہونے کی وجہ سے حرام ہوگئی، اسے سمجھنے میں کوئی خفا نہیں۔ اور نہ اس حدیث کے ذریعے آیت میں تخصیص کی جاسکتی ہے کیونکہ آیتِ قرآن کے کسی عام حکم میں تخصیص کے لیے اسی کے ہم پلہ مضبوط دلیل ہونی چاہیے جبکہ مذکورہ حدیث تو خبرِ واحد ہے جس سے تخصیص کرنا درست نہیں۔

امام ابوبکر جصاص رازی احکام القرآن (2/178) میں فرماتے ہیں:وغير جائز لأحد إثبات تحديد الرضاع الموجب للتحريم إلا بما يوجب العلم من كتاب أو سنة منقولة من طريق التواتر ولا يجوز قبول أخبار الآحاد عندنا في تخصيص حكم الآية الموجبة للتحريم بقليل الرضاع لأنها آية محكمة ظاهرة المعنى بينة المراد لم يثبت خصوصها بالاتفاق وما كان هذا وصفه فغير جائز تخصيصه بخبر الواحد ولا بالقياس

ان دلائل کی روشنی میں واضح ہوگیا کہ حرمتِ رضاعت ثابت ہونے کے لیے دودھ کی کوئی خاص مقدار مثلا تین یا پانچ گھونٹ ہونا ضروری نہیں بلکہ اتنی مقدار کہ جو حلق سے نیچے اتر جائے حرمتِ رضاعت ثابت ہونے کے لیے کافی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved