- فتوی نمبر: 23-148
- تاریخ: 29 اپریل 2024
- عنوانات: مالی معاملات > مضاربت
استفتاء
1) میں نے ایک جگہ سرمایہ کاری کی یعنی ایک بھائی کو سبزی کی دکان کروا کر دی جس میں سرمایہ خود لگایا ہے اور طے یہ ہوا کہ جو نفع ہو گا اس کا 30 فی صد مجھے ملے گااور اگر نقصان ہو گا تو میر ا ہی ہو گا۔اب میں اس کے پاس جاتا ہوں تو وہ مجھے ایک فکس رقم دے دیتا ہے میں نے اس سے پوچھا کہ یہ کس حساب سے دیے اس نے سرسری حساب لگا کر مجھے بتایا کہ ایسے کر کے آپ کو اتنے پیسے دیتا ہوں۔ کبھی زیادہ کبھی کم ہو سکتے ہیں۔ لیکن وہ مسلسل دو ماه سے فكس رقم ہی دے رہا ہے کیا مجھے ایسے پیسے لینا جائز ہے؟
2) میں نے کالج کو یونیفارم مہیا کرنے کے کام میں پیسوں کی سرمایہ کاری کرنی تھی ۔ اس کام میں ٹوٹل چا رشریک تھے جن میں سے دو شرکاء نے تمام سرمایہ مہیا کرنا تھا اور باقی دو نے آرڈر لینا اور انتظام کرنا تھا۔ ہمارا آپس میں چوتھائی چوتھائی نفع طے ہو گیا مثلا اگر دو لاکھ نفع ہوتا ہے تو پچاس پچاس ہزار ہم چاروں میں برابر تقسیم ہو جائے گا۔لیکن جب پیسے دینے کی باری آئی تو میرے پاس پیسے کم پڑ گئے۔ میں نے اپنے ایک اور دوست سے کہا کہ آپ مجھے تھوڑے پیسے دے دو چنانچہ جو نفع مجھے وہاں سے ملے گا اس میں سے آدھا نفع آپ کودونگا مثلا اگر مجھے پچاس (50) ہزار نفع ملتا ہے تو پچیس (25) ہزار آپ کو دوں گا۔تو دس (10) لاکھ روپے اس دوست نے ديے اور پندرہ (15) لاکھ میں نے خود لگائے ۔ليكن میں نے اسے اپنی طرف سے نفع کی تقسیم کی صورت یہ بتائی کہ وہاں نفع دو حصوں میں تقسیم ہوگا یعنی کاروبار میں صرف دو شریک ہیں ۔ اب میں اپنے پاس آئی ہوئی رقم کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہوں نصف اپنے پاس رکھتا ہوں اور نصف جو میرے ساتھ شامل ہوا ہے اس کو دے دیتا ہوں۔ تو کیا اس شریک کو چار شرکاء کا بتائے بغیر اپنے نفع میں سے نصف نفع دینا جائز ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1) مذکورہ صورت میں جب آپ کو اس بات پر تسلی نہیں ہے کہ وہ صحیح طریقے سے نفع دیتا ہے توآپ مضارب سے تفصیلی حساب کتاب کا مطالبہ کر سکتے ہیں اور اس کے بعد نفع لے سکتے ہیں۔
2) مذکورہ صورت جائز ہے البتہ مذکورہ صورت میں اس شریک کو آپ کو حاصل ہونے والے نفع کا آدھا نہیں ملے گا بلکہ اس کا سرمایہ جتنا ہے اس کے حساب سے ملے گا یعنی آپ دونوں کی طرف سے کل پچیس (25) لاکھ میں سے اس کے دس (10 )لاکھ کا جو (40 )فیصد بنتا ہے اتنا ہی اسے نفع ملے گا باقی آپ کا ہوگا ۔
نوٹ: مذکورہ صورت میں آپ کا اس کو یہ کہنا کہ کاروبار میں کل دو بندے شریک ہیں اس لیے نفع صرف دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے یہ غلط بیانی اور گناہ کی بات ہے اور مفضی الی النزاع ہے۔ اس لیے اسے پوری بات بتا دیں البتہ اس کی وجہ سے آپ کے معاملہ کو فرق نہ پڑے گا کیونکہ آپ کا اس سے یہ معاملہ طے ہے کہ جو نفع آپ کو ملے گا اس میں سے اسے بھی ملے گا آگے کل کاروبار میں کتنے شریک ہیں اور نفع کتنے حصوں میں تقسیم ہوتاہے اس سے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
توجیہ:۔ مذکورہ صورت کی اصل یہ ہے کہ یہ صورت باب المضارب یضارب کی ہے کہ سائل نے اس شخص سے پیسے لے کر آگے مضاربت پر دے دیے لیکن چونکہ اس شخص کا نفع اس کے سرمایہ سے زیادہ طے تھا اس لیے یہ صورت بضاعت میں بدل جائے گی اور اس کی رقم کا کل نفع اس شخص کا ہو گا ۔
رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الشرکۃ، فروع (طبع: مکتبہ رشیدیہ، جلد نمبر 6صفحہ نمبر 491)میں ہے:“وفيه : وتفرع على كونه أمانة ما سئل قارئ الهداية عمن طلب محاسبة شريكه فأجاب لا يلزم بالتفصيل ومثله المضارب والوصي والمتولي نهر ، وقضاة زماننا ليس لهم قصد بالمحاسبة إلا الوصول إلى سحت المحصولقال ابن عابدين: قوله : (ومثله المضارب والوصي والمتولي ) سيذكر الشارح في الوقف عن القنية أن المتولي لا تلزمه المحاسبة في كل عام ويكتفي القاضي منه بالإجمال لو معروفا بالأمانة ولو متهما يجبره على التعيين شيئا فشيئا ، ولا يحبسه بل يهدده ؛ ولو اتهمه يحلفه .والظاهر أنه يقال مثل ذلك في الشريك والمضارب والوصي فيحمل إطلاقه على غير المتهم : أي الذي لم يعرف بالأمانة تأمل”رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الوقف (طبع: مکتبہ رشیدیہ، جلد نمبر 6صفحہ نمبر 687)میں ہے:“لا تلزم المحاسبة في كل عام ويكتفي القاضي منه بالإجمال لو معروفا بالأمانة ، ولو متهما يجبره على التعيين شيئا فشيئا ويحبسه بل يهدده ، ولو اتهمه يحلفه قنية .قلت : وقدمنا في الشركة أن الشريك والمضارب والوصي والمتولي لا يلزم بالتفصيل ، وأن غرض قضاتنا ليس إلا الوصول لسحت المحصولقال ابن عابدين: قوله : (قلت وقدمنا إلخ ) استدراك على قوله : ولو متهما يجبره على التعيين ، وقد يجاب ما قدمه على ما إذا كان معروفا بالأمانة”رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الشرکۃ، مطلب فی توقیت الشرکۃ(طبع: مکتبہ رشیدیہ، جلد نمبر 6صفحہ نمبر 479)میں ہے:“وإن شرطا الربح للعامل أكثر من رأس ماله جاز أيضا على الشرط ويكون مال الدافع عند العامل مضاربة ولو شرطا الربح للدافع أكثر من رأس ماله لا يصح الشرط ويكون مال الدافع عند العامل بضاعة لكل واحد منهما ربح ماله والوضيعة بينهما على قدر رأس مالهما أبدا هذا حاصل ما في العناية “شرح المجلۃ للاتاسی، الباب السادس فی بیان شرکۃ العقد، الفصل الرابع فی حق ضوابط تتعلق بشرکۃ العقد، المادہ :1347 (طبع: مکتبہ رشیدیہ، جلد نمبر4صفحہ نمبر248) میں ہے:“المادة 1347 ۔ كما أن استحقاق الربح يكون تارة بالمال أو بالعمل كذلك بحكم مادة 85 يكون تارة بالضمان كما أن في المضاربة يكون رب المال مستحقا للربح بماله والمضارب بعمله وإذا أخذ واحد من أرباب الصنائع تلميذا عنده وأعمله ما تقبله وتعهده من العمل بنصف أجرته فيكون جائزا والكسب يعني الأجرة المأخوذة من أصحاب العمل كما يكون نصفها مستحقا لذلك التلميذ بعمله يكون نصفها الآخر مستحقا للأستاذ أيضا بتعهده وضمان العملیعنی ان الربح لا يستحق الا باحد ثلاث وهي العمل كالمضارب في المضاربة او المال كرب المال فيها او بالضمان كالاستاذ الذي يتقبل العمل من الناس ويلقيه على التلميذ ليعمله بنصف اجرته او باقل مما اخذ فيستحق الاستاذ ما يأخذه بسبب كونه قد ضمن العمل والتزمه والربح لا يستحق بغير هذه الثلاث ۔۔۔ الخ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved