- فتوی نمبر: 23-381
- تاریخ: 30 اپریل 2024
- عنوانات: مالی معاملات > مضاربت
استفتاء
سوال: کیا یہ اگریمنٹ درست ہے؟
اس اگریمنٹ کے ساتھ اپنے معاملے کی تفصیل بھی لکھ کر ارسال کی جائے ۔
میں اپنے جاننے والوں سے ایک گائے کی قیمت وصول کروں گا بالکل انجان لوگوں سے بھی نہیں لوں گااور ایک ہی قیمت بھی سب سے نہیں وصول کروں گا اور پھر ان کا دودھ بیچ کر فیصد کے اعتبار سے ان کو نفع دوں گا اگر خدانخواستہ میرے فارم کے اوپر گائیں چوری ہوجاتی ہیں یا مرجاتی ہیں تو میں اس کا مکمل سرمایہ واپس کروں گا جو گائے کی قیمت ہوگی باقی اس میں ہر چیز کی تفصیل لکھی ہے جو بات سمجھ نہ آئے تو پوچھ لیں۔
معاہدہ نامہ
یہ معاہدہ فریق اول علی اور فریق ثانی ۔۔۔۔۔کے درمیان ہے۔
1) فریق اول فریق دوم کی طرف سے اتنی رقم ۔۔۔۔۔۔ میں گائے تلاش کرے گا ور خریدے گا۔گائے کا نمبر آپ کے لیے متعین کر دیا جائے گا۔
2) فریق اول گائے کاخیال رکھے گا اور دودھ مارکیٹ میں فروخت کرے گا۔
3) مہینہ کے آخر میں فریق اول دودھ کی فروخت سے حاصل شدہ تمام رقم کا حساب کتاب کرے گا اور کم از کم 20 فی صد فریق ثانی کو ادا کرے گا۔نیز ہم مندجہ ذیل شرائط بھی سرمایہ کار کے فائدے کے لیے لاگو کر کر رہے ہیں۔
گائے کا دودھ (ماہانہ) نفع کا فیصد(انویسٹر کے لیے)
400 کلو سے زیادہ 20 فیصد
351 سے 400 کلو 22٫5 فیصد
301 سے 350 کلو 25 فیصد
250 سے 300 کلو 30 فیصد
201 سے 250 کلو 35 فیصد
151 سے 200 کلو 50 فیصد
101 سے 150 فیصد 60 فیصد
100 کلو تک 100 فیصد
4) فریق اول باقی (80 فیصد)کو مزدوری ،گائے کاکھانا ،وٹا من ،زمین کا کرایہ ودوائی ،بل وجنریٹر ،افزائش وآلات، تمام خطرات ونقل وحمل ،سفر اور اپنا نفع کی مد میں رکھے گا۔
5) فریق اول ضمانت کے طور پر چیک دے گا کہ سرمایہ محفوط ہا تھوں میں ہے اور کوئی فراڈ نہیں ہے۔
6) اگر پیسے واپس چاہیں یا مزید دلچسپی نہیں تو فریق اول گائے کو خود خرید ے گا یاآگے فروخت کرے گا اور فریق ثانی قیمت فروخت وصول کرلے گا۔
7) گائے کی موت ،چوری کی صورت میں فریق اول مکمل رقم 40 دن میں واپس کرے گا۔
8) فریق ثانی 10 تاریخ تک تمام ادائیگی کرے گا۔
9) اگر فریق اول معاہدہ ختم کرنا چاہے تو فریق ثانی کو 30 دن پہلے بتلائے گا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ معاہدہ درست نہیں ہے ۔
توجیہ:
1) مذکورہ صورت میں فریق اول کا نفع اگرچہ فیصد میں طے ہے لیکن وہ فیصد متعین نہیں ہے بلکہ دودھ کی مقدار کے ساتھ منسلک ہے جبکہ کوئی ایک فیصد متعین ہونا ضروری ہے ۔نیز ایک خاص حد تک جا کر نفع میں شرکت قطع ہوجاتی ہے۔
2) گائے کی چوری یا ہلاکت کی صورت میں بہر صورت فریق اول کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے جبکہ جس صورت میں اس کی طرف سے کوئی کوتاہی نہ ہو تو اس صورت میں نقصان کی ذمہ داری اس پر نہیں ہے۔
الشرح الکبیر لابن قدامہ (6/19)ولو استأجر راعيا لغنم بثلث درها وصوفها وشعرها ونسلها أو نصفه أو جميعه لم يجز نص عليه أحمد في رواية سعيد بن محمد النسائي لان الاجر غير معلوم ولا يصلح عوضا في البيع، قال اسمعيل بن سعيد سألت أحمد عن الرجل يدفع البقرة إلى الرجل على أن يعلفها ويحفظها وولدها بينهما فقال اكره ذلك وبه قال ابو ايوب وأبو خيثمة ولا أعلم فيه مخالفا لان العوض معدوم مجهول لا يدرى ايو جدام لا، والاصل عدمه ولا يصلح أن يكون ثمنا، فان قيل فقد جوزتم دفع الدابة إلى من يعمل عليها بنصف مغلها قلنا انما جاز ثم تشبيها بالمضاربة [لعل الصواب المزارعة كما في مطالب أولي النهي: 3/594، و المغني: 5/8. ناقل] ولانها عين تنمي بالعمل فجاز اشتراط جزء من النماء كالمضاربة والمساقاة [لعل الصواب المزارعة بدل كما في مطالب أولي النهي: 3/594، و المغني: 5/8. ناقل] وفي مسئلتنا لا يمكن ذلك لان النماء الحاصل في الغنم لا يقف حصوله على عمله فيها فلم يمكن الحاقه بذلك.وذكر صاحب المحرر[1] رواية أخرى انه يجوز بناء على ما إذا دفع دابته أو عبده يجزء من كسبه والاول ظاهر المذهب لما ذكرنا من الفرق، وعلى قياس ذلك إذا دفع نحله إلى من يقوم عليه بجزء من عسله وشمعه يخرج على الروايتين فان اكتراه على رعيها مدة معلومة بجزء معلوم منها صح لان العمل والمدة والاجر معلوم فصح كما لو جعل الاجر دراهم ويكون النماء الحاصل بينهما بحكم الملك لانه ملك الجزء المجعول له منها في الحال فكان له نماؤه كما لو اشتراه.المغني (6/ 140) مسألة : قال : ولا ضمان على الراعي إذا لم يتعد : لا نعلم خلافا في صحة استئجار الراعي وقد دل عليه قول الله تعالى مخبرا عن شعيب أنه قال { إني أريد أن أنكحك إحدى ابنتي هاتين على أن تأجرني ثماني حجج } وقد علم أن موسى عليه السلام إنما آجر نفسه لرعاية الغنم إذا ثبت هذا فإنه لا ضمان على الراعي فيما تلف من الماشية ما لم يتعد ولا نعلم فيه خلافا إلا عن الشعبي فإنه روي عنه أنه ضمن الراعي ولنا أنه مؤتمن على حفظها فلم يضمن من غير تعد كالمودع ولأنها عين قبضها بحكم الإجارة فلم يضمنها من غير تعد كالعين المستأجرة فأما ما تلف بتعديه فيضمنه بغير خلاف مثل أن ينام عن السائمة أو يغفل عنها أو يتركها تتباعد منه أو تغيب عن نظره وحفظه أو ضربها ضربا يسرف فيه أو في غير موضع الضرب أو من غير حاجة إليه أو سلك بها موضعا تتعرض فيه للتلف وأشباه هذا مما يعد تفريطا وتعديا فتتلف به فعليه ضمانها لأنها تلفت بعدوانه فضمنها كالمودع إذا تعدىمذکورہ صورت ادھیارے پر جانور دینے کی ہے جو حنفیہ کے نزدیک جائز نہیں ہے البتہ حنابلہ کے نزدیک جائز ہے جس کو اب ضرورت کی وجہ سے لیا جاسکتا ہے لیکن ان کے قول کو لے بھی لیں تب بھی مذکورہ ایگریمنٹ میں متعدد خرابیاں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم(1) هو مجد الدين أبو البركات عبد السلام بن عبد الله بن أبي القاسم بن محمد بن تيمية [غير ابن تيمية المعروف] قال الذهبي الحافظ: كان الشيخ مجد الدين معدوم النظير في زمانه، رأساً في الفقه وأصوله، بارعاً في الحديث ومعانيه، له اليد الطولى في معرفة القرآن والتفسير، وصنف التصانيف، واشتهر اسمه، وبَعُدَ صيته. وكان فرد زمانه في معرفة المذهب، مفرط الذكاء، متين الديانة، كبير الشأن(طبقات الحنابة:1/284)
© Copyright 2024, All Rights Reserved