• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

جھینگا کھانے کا حکم

استفتاء

مفتی  صاحب !کیا جھینگا کھانا جائز ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جھینگا کے مچھلی ہونے نہ ہونے میں اختلاف ہے اکثر کی رائے یہ ہے کہ جھینگا مچھلی کی ہی ایک قسم ہے لہذا اسے کھانا جائز ہے تاہم اختلاف کی وجہ سے کوئی احتیاط کرے تو اچھی بات ہے۔

فاکهة البستان:154

واختلف المشایخ فی اکل السمک الصغیر الذی تشبه الدودة ویقال له جهنکه فعند بعض العلماء حرام لانه لایشبه السمک وانما یباح عندنا من صید البحر انواع السمک وقال بعضهم حلال لانه یسمی باسماء السمک کذا فی کنز العباد وتحفة الفقه و الحمادیة والفتاوی الابراهیم الشاهیة ولم یصرح فی هذه الکتب الاربعة ولافی غیر ها بترجیح احدی الروایتین لکن ما ذکره العینی شارح الکنز انه یحل اکل المارماهی وهی سمکة تشبه الحیة مؤید لروایة القائلین بالحل وما ذکره صاحب الکفایة شارح الهدایة بعدذکرالفرق بین مسألة الحمرالاهلیة والوحشیة انه یعلم بهذا ان لا اعتبار بالمشابهة الصوریة شرعا مؤید لتلک الروایة ایضا فلیتدبر وماهی جهنگه را بعربی ار بیان وبفارسی ملخ آب گویند کذا فی مؤید الفضلاء فی فصل المیم مع الباء وسیأتی تحقیق الاربیان فی خاتمة الکتاب عند بیان قسم الحیوانات البحریة ولو ارسلت سمکا فی ماء نجس فکبرت فیه لابأس باکلها للحال کذا فی القنیة والتاتارخانیة والمنظومة الوهبانیة وذکر الشیخ حسن الشرنبلالی فی شرحه للمنظومة وکذالوتولدت السمکة فی ماء نجس فکبرت فیه لابأس باکلها للحال لانه ثبت حله بالنص وکونه یتغذی بالنجاسة لایمنع حله ۔انتهی

وایضا فیه:235

ومنها صنف یقال لها الاربیان وهی بکسر الهمزة سمکة کالدود کذا فی القاموس الاربیان بکسر الهمزة ضرب من السمک بیض کالدود تکون بالبصرة کذا فی الصحاح للجوهری ۔السمک الصغیرة التی تشبه الدودة یقال لها جهینگه کذا فی کنز العباد والفتاوی الحمادیه ومیر عبدالرشید در رشیدی فارسی خود گفته که اربیان بفتح همزه وباء تازی ملخ آبی که بهندی جهنگه گویند وبتازی جراد البحر نامند انتهی ودر کشف اللغات آورده که ملخ آب نوعیت ازما هی خورد که بتازیش اربیان وبهندیش جهنگه نامند۔

امداد الفتاوی( جلد نمبر 4 صفحہ 104 )میں ہے:

سوال :جھینگا مچھلی کی حلت مشہور ہے مگر مجھ کو اس میں تردد ہے ،غالبا جناب کو تحقیق ہوگی کہ یہ جانور اگر حلال ہے تو کیوں؟ حنفیہ کے نزدیک دریائے جانوروں میں سوائے سمک حلال نہیں، محض نام میں مچھلی کا اطلاق تو سبب حلت ہو نہیں سکتااور خواص میں تغایرہے،کیونکہ اس کی ٹانگیں ہوتی ہیں اور گلا کٹا ہوا نہیں ہوتا ،اگر اس کو مچھلی میں داخل کیا جاتا ہے تو کیوں ؟

شامی ،عالمگیریہ میں ملا نہیں، حمادیہ میں اختلاف نقل کیا ہے جو قول محقق جناب کے نزدیک ہو، تحریر فرمائیں کہ خلجان رفع ہو۔

جواب :اس پر تو سب کا اتفاق ہے کہ سمک بجمیع انواعہ حلال ہے۔ اب صرف شبہ اس میں ہے کہ یہ سمک ہے یا نہیں؟سوسمک کے کچھ خوا ص لازمہ کسی دلیل سے ثابت نہیں ہوئے کہ ان کے انتفاء سے سمکیت منتفی ہوجائے۔ اب مدار صرف عدو ل مبصرین کی معرفت پر رہ گیا ہےاور اگر مبصرین میں اختلاف ہوگا تو حکم میں بھی اختلاف ہوگا ۔چنانچہ اسی وجہ سے جریث میں امام محمد رحمہ اللہ مخالف ہیں جیسا کہ علامہ شامی نے نقل کیا ہے۔ اس وقت میرے پاس جو حياۃ الحيوان دمیری کی،(جو کہ مالیات حیوانات سے بھی باحث ہے) موجود ہے، اس میں تصریح ہےالروبیان کوسمک صغیر جدا (1/528)

اور اس کے مقبول نہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں، بس یہ مقتضی حلت کو ہے۔مخزن جوکہ نیز باحث ہے

ماہيات ادويہ سے اس میں گو اس کو ماہی سےتعبیر کرنا حجت نہیں ،مگر آگے اس کو حلال کہنا صاف قرینہ ہےکہ اس نے اس کو ماہیت ماہی میں داخل کیا ہے۔پس اس سے اور بھی تائید ہو گئی بہرحال احقر کو اس وقت تو اس کے سمک ہونے میں بالکل اطمینان ہے۔

کفایت المفتی (جلد 9 صفحہ 138 )میں ہے کہ:

جھینگا اکثر علماء کے نزدیک مچھلی کےحکم میں ہے،مچھلی کی ایک قسم قرار دے کر اسے کھانے والے کھاتے ہیں اور بعض علماء اسے مچھلی کی قسم قرار نہیں دیتے ،وہ اسے ناجائز کہتے ہیں،بہرحال اس میں اختلاف ہے ،احتياط يہ کہ  نہ کھایا جائے ۔

فتاوى رحيمیہ(10/77) میں ہے:

جھینگا میں اختلاف ہے، بعض علماء نے مچھلی سمجھ کر حلال کہا ہےاوربعض نے کیڑا خیال کرکے منع کیا تو یہ جانورمشکوک ہوا اور مشکوک اپنی اصل پر محمول ہے۔جھینگا میں اصل مچھلی ہونا ہے، کیڑے ہونے کا شبہ ہے۔ لہذا بناء براصل کے حلال ہے، حرام قرار دینا صحیح نہیں اور یہ بھی صحیح نہیں کہ جھینگا کیڑا ہے، اس لئے کہ کیڑا پیٹ سے پیدا ہوتا ہے ،جھینگا  مچھلی کی طرح انڈے سے پیدا ہوتا ہے۔نیز مچھلی کی دیگر علامتیں بھی جھینگے میں پائی جاتی ہیں، اس لئے جھینگا حرام اور واجب الترک نہ ہوگا ۔یہ فتوی ہے اور بچنے میں تقوی اور تقوى مرتبہ كمال ہے۔

فقہی مقالات(  3/321 )میں ہے:

جواز کا قول اس لیے راجح معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کے مسائل میں شریعت کا مزاج یہ ہے کہ وہ لوگوں کے عام عرف کا اعتبار کرتا ہے، فنی باریکیوں کو نہیں دیکھتا، لہذا فتوی دیتے وقت جھینگے کے مسئلے میں سختی کرنا مناسب نہیں ہے،بالخصوص جب کہ بنیادی طور پر یہ مسئلہ اجتہادی ہے کہ ائمہ ثلاثہ کے نزدیک جھینگا کے حلال ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے ۔نیز کسی مسئلے میں فقہاء کا اختلاف تخفیف کا باعث ہے ،البتہ پھر بھی جھینگا کھانے سے اجتناب کرنا زیادہ مناسب ،زیادہ اہم اور زیادہ اولیٰ ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved