- فتوی نمبر: 30-119
- تاریخ: 14 دسمبر 2023
- عنوانات: عقائد و نظریات > منتقل شدہ فی عقائد و نظریات
استفتاء
1۔قرآنی اور مسنون دعاؤں کے صیغوں میں واحد جمع کی تبدیلی کرنا کیسا ہے؟
2۔نماز اور خارج نماز کے حکم میں کوئی فرق ہے؟
3۔قرآن اور حدیث کی دعاؤں میں حکم کا کوئی فرق ہے؟
4۔نیز یہ بھی وضاحت فرمائیں کہ اجتماعی دعا کے موقع پر مفرد صیغہ والی دعا مثلا رب زدني علما کو کس طرح پڑھنا چاہیے؟اگر زیادہ لوگوں کے لیے دعا کرنی ہو تو کیا صیغہ مفرد کو رکھ کر نیت جمع کی بھی کر سکتے ہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔قرآنی اور مسنون دعاؤں کے صیغوں میں واحد جمع کی تبدیلی کرنا درست ہے ۔
2۔نما زاور خارج نماز دونوں کا یہی حکم ہے۔
3۔قرآنی دعاؤں اور حدیث کی دعاؤں میں صرف اتنا فرق ہے کہ قرآنی دعائیں جب بغرض تلاوت پڑھی جائیں تو ان میں تبدیلی کرنا جائز نہیں اور بغرض دعا پڑھی جائیں تو تبدیلی درست ہے۔
4۔اجتماعی دعا میں مفرد کا صیغہ استعمال کرنا اور نیت جمع کی کرنا بھی جائز ہے جیسے "رب زدني علما ” اور بہتر بھی یہی ہے کہ مفرد کا صیغہ پڑھا جائے اور نیت جمع کی کی جائے تاکہ ماثور الفاظ کی حتیٰ الامکان رعایت ہوسکے اور صیغہ بدلنا ہو تو اس کی بھی گنجائش ہے اور اس صورت میں "رب زدني علما ” کو "ربنا زدنا علما” پڑھا جائے گا۔
اللباب في شرح الكتاب (ص: 38) میں ہے:
(ودعا بما شاء مما يشبه ألفاظ القرآن) لفظاً ومعنى بكونه فيه نحو (ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة) وليس منه، لأنه إنما أراد به الدعاء لا القراءة.
الحرز الثمین(1/94) میں ہے:
قال علی القاری فینبغی ان یحمل حدیث ثوبان بان لایخص الامام نفسه بالدعاء علی ان المراد بالتخصیص قصد حصول اثر الدعاء لنفسه دون غيره ولو کان بصيغة الافراد فیرجع الی معنی ما سیأتی من قوله وان لا یتحجر فتدبر
فتاوی قاسمیہ (4/600) میں ہے:
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: ایک امام صاحب فرض نمازوں کے بعد اجتماعی دعاؤں میں "لا إله إلا أنت سبحانك إنا كنا من الظالمین ” پڑھتے ہیں، اس طرح سے کئی دنوں سے پڑھتے ہیں، لیکن ایک صاحب خصوصی موقع پر بھری مجلس میں دعا میں لقمہ دے کر "انی كنت” کہہ كر "انا كنا” کے پڑھنے کو تحریف قرآن کا سنگین مسئلہ بتارہے ہیں ۔اسی لئے آپ سے التماس ہے کہ آیا ” إنا كنا اجتماعی دعاؤں میں پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟………نیز عوام الناس کی خاطر إني كنت“ اور ” إنا كنا“ کے فرق کو معنی کی تفصیل کے ساتھ معلوم کرائیں۔
الجواب وبالله التوفيق: امام کے لئے حکم یہ ہے کہ وہ اپنی اجتماعی دعا میں مقتدیوں کی رعایت کر کے جمع متکلم کا صیغہ استعمال کرے اور واحد متکلم کے صیغہ سے احتراز کرے لیکن وہ دعا ئیں جو قرآن وحدیث سے ثابت ہیں، اگر چہ وہ صیغہ واحد متکلم کے ساتھ ہوں، چونکہ امام مقتدیوں کا نمائندہ ہوتا ہے، اس حیثیت سے اس کے مفہوم میں تمام مقتدی بھی شامل ہو جاتے ہیں؛ اس لئے اولی اور افضل تو یہی ہے کہ امام انہیں صیغوں کے ساتھ دعا مانگے جو ماثور ہیں؛ لیکن اگر کوئی امام دعائے ماثورہ میں واحد کی جگہ جمع کا صیغہ استعمال کرے، جیسا کہ ادھر اکثر ائمہ مساجد کا معمول ہے، مثلا: "ربنا اغفر لي ولوالدي وللمؤمنين “ میں واحد کے صیغہ کو جمع سے تبدیل کر کے ربنا اغفر لنا ولوالدينا الخ“ بوقت دعا پنج وقتہ دعاؤں میں پڑھا کرتے ہیں اور مسئولہ دعائے یونس علیہ السلام، نیز سبحان ربنا رب العزة” كما ربيانا صغيرا وغیرہ میں بھی بوقت ضرورت دعا میں واحد کی جگہ جمع کا صیغہ استعمال کرنے کی شرعاً اجازت ہے، گو خلاف اولیٰ ہے، جنوبی ہند کے مشہور فقیہ اور عالم دین مولانا شاہ عبدالوہاب صاحب قادری ویلوری رحمہ اللہ تعالی کے فتاوی ‘باقیات صالحات ص: ۶۴ میں دعا کرتے وقت ماثور دعاؤں کے صیغے اپنے مطابق بدل لینا جائز لکھا ہے۔
فتاوی قاسمیہ (4/601) میں ہے:
سوال : احادیث میں بعض دعاؤں میں واحد متکلم کا صیغہ ہے، اجتماعی دعاؤں میں جمع متکلم کا صیغہ استعمال کرنا درست ہے یا نہیں؟ مثلا : ” إهدني“ کی جگہ اهدنا الخ۔
الجواب : درست ہے۔
فتاوی محمودیہ(3/242) میں ہے:
سوال : حدیث شریف میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اختتام مجلس کے بعد یہ دعا پڑھتے تھے "سبحان الله وبحمده سبحانك وبحمدك، وأشهد أن لا إله أنت أستغفرك وأتوب إليك“خط کشیدہ صیغہ واحد متکلم کا ہے، اسے جمع متکلم کا پڑھنا درست ہے یا نہیں ؟ جب کہ میری نیت یہ ہوتی ہے کہ چونکہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اختام مجلس کے بعد دعا پڑھتے تھے اور جود عاء پڑھتے وہی ہم پڑھ رہے ہیں،پھر بھی واحد کی جگہ جمع کا صیغہ پڑھنا یا پڑھانا درست ہے یا نہیں ؟ بینوا توجروا۔
الجواب : درست ہے کہ اس میں اہل مجلس کی شرکت بھی ہو جائے گی ۔ فقط واللہ تعالی اعلم ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved