• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

اگر تو میرے بستر پر آئی تو تجھے حرام ہے

استفتاء

ایک شخص  اپنی بیوی کو بلائے صحبت کے لیے اور بیوی نہ آئے تو وہ اپنی بیوی سے کہہ دے  تنبیہ کے لیے  یعنی اسے آنے سے منع کرنے کے لیے غصہ میں” اگر تو میرے بستر پہ آئی تو تجھے حرام ہے” ( اشارہ اپنے بستر کی طرف کرے )۔ سائل حلفاً یہ  کہتا ہے کہ یہ جملہ سخت منہ سے نکلا لیکن مقصود صرف اور صرف تنبیہ تھی۔ اور اس نے تاحال احتیاطاً اپنی بیوی سے صحبت نہیں کی اور وہ اپنی بیوی کو اس کی رضا سےساتھ رکھنا چاہتا ہے۔

لہذا محترم گرامی قدر: قرآن و سنت کے مطابق اس مسئلہ کا حکم  اور حل فرمادیں۔

نوٹ: بستر پر آنے سے مراد صحبت کرنا تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں شوہر کے ان الفاظ سے کہ” اگر تو میرے بستر پر آئی تو تجھے حرام ہے” کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی اور میاں بیوی بدستور اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شوہر کے اس کلام میں کہ "اگر تو میرے بستر پر آئی تو تجھے حرام ہے” عورت کے لیے کی چیز حرام ہے، مذکور نہیں۔ لیکن شرط کا جملہ اس بات کا قرینہ ہے کہ میرے بستر پر آنا مراد ہے۔ لہذا پورے جملے کا حاصل یہ نکلتاہے:” اگر تو میرے بستر پر آئی تو میرے بستر پر آنا حرام ہے” اور کسی جائز اور مباح کام کو دوسرے پر حرام کرنا یہ دوسرے پر قسم کھانے کے مترادف ہے۔ اور آدمی اپنے فعل پر قسم کھا سکتا ہے، دوسرے کے فعل پر نہیں۔ لہذا یہ کلام لغو ہے۔ خصوصاً جبکہ شوہر کی نیت طلاق دینے کی بھی نہیں ہے۔ فقط واللہ تعالٰی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved