• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر

اپنی زندگی میں بیٹوں اور بیٹیوں میں فرق کے ساتھ مال تقسیم کرنا

استفتاء

بندہ کو اپنی زندگی میں اولاد کے درمیان کچھ وراثت کی تقسیم کے حوالے سے شرعی راہنمائی مطلوب ہے ۔صورتحال یہ ہے کہ :

1۔بندہ کے پاس ایک مملوکہ مکان ہے جس کی مالیت تقریبا 6،7کروڑف ہے ۔

2۔ایک مملوکہ دوکان ہے جو اکبری منڈی میں ہے جس کی مالیت تقریبا 50لاکھ ہے ۔اور کاروبار کی مالیت 40لاکھ ہے۔

3۔ملتان روڈ پر ایک کاروبار کا اڈا ہے جو مملوکہ نہیں ،مگر اس سے کما کر دو پلاٹ خریدے ہیں جن کی مالیت تقریبا 50لاکھ ہے۔

4۔کاروبار ہے جو اکبری منڈی والی دوکان پر ہے ،اور ملتان روڈ پر بھی اسی کا روبار کا ایک حصہ ہے دونوں جگہ کاروبار کی مالیت تقریبا یکساں ہے ۔بندہ کے دو بیٹے ہیں جو شادی شدہ ہیں اور دو بیٹیاں ہیں جو اپنے اپنے گھروں میں خوشحال ہیں ۔بیٹوں کی معاشی حالت نارمل ہے جب کہ بچیاں بہت خوشحال ہیں ۔مثلااگر بچوں کے پاس 10روپے ہیں توبچیوں کے پاس 100ہیں ۔

دونوں جگہ کے کاروبار میں نقدی اور اثاثہ جات کے ساتھ ساتھ قابلِ وصول قرضے (Recivebls) بھی ہیں اور واجب الاداء (Payables) بھی ہیں۔ اگرچہ مقدار میں فرق ہے مگر تناسب تقریباً یکساں ہے۔ مثلاً ایک جگہ اگر واجب الوصول اورواجب الاداء کا تناسب ایک کروڑ اور ڈھائی کروڑ کا ہے تو دوسری جگہ 25 لاکھ اور ایک کروڑ کا ہو گا۔

بندہ یہ چاہتا ہے کہ اپنی زندگی میں اولاد کے درمیان اثاثے مندرجہ ذیل طریقے سے تقسیم کردئیے جائیں تاکہ ایک تو بعد میں جھگڑے اور شکوے نہ ہو ں ۔ دوسرے بچے اپنی ذاتی دلچسپی سے کاروبار کریں اور اپنا کام سمجھ کرکر یں ۔ تیسرے ہم میاں بیوی کازندگی بھر اولاد پر مکمل انحصار بھی نہ ہو بلکہ کاروبار میں کچھ اپنا حصہ بھی رہے تاکہ احتیاج کی صورت پیدا نہ ہو ۔

اس پس منظر میں بندہ کے درج ذیل سوالات ہیں ۔

1۔            کیا زندگی میں بیٹوں کو اس طرح دینا درست ہے؟

2۔            مکان جو کہ زیادہ مالیت کا ہے یہ فی الحال کسی کو بھی نہ دیا جائے وہ بعد میں وراثت بن جائے ۔اور اسی میں سے بچیوں کو اپنا حصہ مل جائے ۔بچیاں اس بات پر راضی ہیں اور ان کو ضرورت بھی نہیں ہے ۔بچیوں کو امتیازی سلوک سے بچانے کے لیے ایک ممکنہٖ صورت یہ بھی ہے کہ ان کے لیے مکان میں سے اتنے حصے کی اضافی وصیت کر دی جائے جتنی مالیت اب بچوں کو دی جارہی ہے اور بچوں کو اس کا پابند کر دیا جائے ۔کیا ایسا کرنے کی گنجائش ہے؟

3۔            اکبری منڈی والی دوکان اور کاروبارکاکچھ حصہ مثلا70%فیصد ایک بیٹے کو دیدیا جائے ۔اور باقی 30فیصدمثلا میرا (اویس احمد کا )ہوگا۔کیا ایسا کرنا درست ہے؟

4۔            ملتان روڈ والا کاروبار اور اس سے خریدے گئے دو پلاٹ کاکچھ حصہ مثلا70%فیصد دوسرے بیٹے کو دیدئے جائیں۔اور باقی 30فیصدمثلااہلیہ اویس احمد کا ہوگا۔اس کی شرعی حیثیت کیاہے؟

5۔            دونوں جگہوں سے فریقین 70%اور 30%کی نسبت سے ماہانہ خرچہ لیں گے اور سالا نہ حساب کے بعد جو نفع اور نقصان ہو گا فریقین میں تقسیم ہو جائے گا۔اس میں شرعی اشکال تو نہیں؟

6۔            فریقین اپنا کوئی بھی کاروبار بغیر مشورے کے الگ نہیں کرسکتے اگر کیا تو اسکا نفع ونقصان بھی اسی فیصد سے ہو گا۔

کیا یہ شرعا درست ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔            زندگی میں اپنی اولاد کو جو کچھ دیا جائے اس کی حیثیت ہبہ اور ہدیہ کی ہوتی ہے جس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ اولاد کو برابر دیا جائے، بیٹے اور بیٹی کے حصے میں بھی فرق نہ ڈالا جائے۔ لیکن اس بات کی بھی گنجائش ہے کہ وراثت کی طرح بیٹے کو دو گنا اور بیٹی کو ایک گنا دیدیا جائے۔ البتہ کسی کو بالکل نہ دینا یا نمایاں فرق کے ساتھ دینا یا امتیازی سلوک کرنا جائز نہیں۔ تاہم اگر اس کی کوئی معقول بنیاد موجود ہو تو اس کی بھی گنجائش ہے۔

سوال میں ذکر کردہ صورت میں چونکہ بیٹوں کی مالی حیثیت بیٹیوں کی نسبت کافی کمزور ہے اور خود کفیل اور عیالدار ہونے کی وجہ سے ان کو ضرورت بھی زیادہ ہے اور بیٹیوں کو اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں ہے اس لیے بچوں کو مذکورہ ترتیب سے دینے کی گنجائش ہے۔

2۔            مکان کو ایسے چھوڑنا درست ہے تاہم مکان میں بچیوں کے لیے اضافی حصے کی وصیت وارث کے لیے وصیت ہے اور ایسی وصیت شرعاً دیگر ورثاء کی اجازت پر موقوف ہوتی ہے۔ چنانچہ کل کو دیگر ورثاء اس پر عملدر  آمد پر راضی ہوں گے تو اس کا فائدہ ہو گا ورنہ اس کی حیثیت  آپ کی خواہش سے زیادہ نہیں۔ البتہ اگر  آپ مناسب سمجھیں تو ابھی سے مکان کا کچھ حصہ بچیوں کو ہبہ کر سکتے ہیں۔

3۔            درست ہے۔

4۔            درست ہے۔

5۔            شرکت (Partnership) میں شرکاء چاہے عمیل (Working partner) ہوں یا غیر عمیل (Sleeping partner) تنخواہ یا خرچہ نہیں لے سکتے۔ اس کے بجائے وہ اپنے لیے طے شدہ تناسب سے حقیقی نفع کے حقدار ہوتے ہیں، اور حقیقی نفع کا تعین شرکت کے اختتام پر ہوتا ہے۔ تاہم اگر ان کے لیے کچھ لیے بغیر اتنا انتظار مشکل ہو تو ایسا بھی ممکن ہے کہ ہر ماہ متوقع تخمینی نفع میں سے کچھ خرچے کے عنوان سے لیتے رہیں۔ یہ حقیقی نفع نہیں ہو گا بلکہ اس خرچے کی حیثیت نفع کی عبوری تقسیم کی ہو گی۔ شرکت کے تصفیے اور اختتام پر جب حساب ہو گا تو اصل نفع کا علم ہو گا، اگر ماہ بماہ حقیقی نفع سے زیادہ لے چکے تھے تو زائد واپس کریں گے اور اگر کم لیا تھا تو باقیماندہ لینے کا حق حاصل ہو گا۔

6۔            یہ شق اس حدتک تو درست ہے کہ دوسرے فریق کو الگ کاروبارسے منع کیا جائے تاہم دوسرے کاروبار میں خود بخود شریک ہونے کی شرط درست نہیں ۔

توجیہات:

1-2۔      رد المحتار:(444/4) میں ہے:

ورد في الحديث أنه قال سووا بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرا أحدا لآثرت النساء على الرجال . رواه سعيد في سننه . وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير تقوا الله وعدلوا في أولادكم فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة .

 وفي الخانية ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض روى عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره . وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى . وقال محمد يعطى للذكر ضعف الأنثى .

 وفي التتارخانية معزيا إلى تتمة الفتاوى قال ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث وتبعه أعيان المجتهدين وأوجبوا التسوية بينهم وقالوا يكون آثما في التخصيص وفي التفضيل .

فتاویٰ عالمگیری (391/4) میں ہے:

ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا وروي عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف رحمه الله تعالى أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار كذا في الظهيرية رجل وهب في صحته كل المال للولد جاز في القضاء ويكون آثما فيما صنع كذا في فتاوى قاضي خان وإن كان في ولده فاسق لا ينبغي أن يعطيه أكثر من قوته كي لا يصير معينا له في المعصية كذا في خزانة المفتين ولو كان ولده فاسقا وأراد أن يصرف ماله إلى وجوه الخير ويحرمه عن الميراث هذا خير من تركه كذا في الخلاصة ولو كان الولد مشتغلا بالعلم لا بالكسب فلا بأس بأن يفضله على غيره كذا في الملتقط .

3-4۔ یہاں چند باتیں قابل غور ہیں:

الف: مذکورہ دونوں صورتیں ہبۃ المشاع کی ہیں جو امام صاحب کے ہاں عملی تقسیم کے بغیر جائز نہیں ہیں تاہم پہلی صورت ائمہ ثلاثہ اور دوسری صورت خود حنفیہ میں سے امام محمد رحمہ اللہ کے ہاں جائز ہے۔ عملی تقسیم کی دشواریوں سے بچنے کے لیے ان حضرات کے قول کو اختیار کیا گیا ہے۔ (راجع للتفصیل: شرکت و مضاربت عصر حاضر میں)

فتاویٰ عالمگیری (378/4) میں ہے:

والشيوع من الطرفين فيما يحتمل القسمة مانع من جواز الهبة بالإجماع وأما الشيوع من طرف الموهوب له فمانع من جواز الهبة عند أبي حنيفة رحمه الله تعالى خلافا لهما كذا في الذخيرة ولو وهب من اثنين إن كانا فقيرين يجوز بالإجماع كالصدقة وإن كانا غنيين فوهب لكل واحد منهما نصفا أو أبهم فقال وهبت منكما أو وهب على التفاضل فقال لهذا ثلثها ولهذا ثلثاها قال أبو حنيفة رحمه الله تعالى لا تجوز في الفصول الثلاثة وقال محمد رحمه الله تعالى تجوز في الثلاثة وقال أبو يوسف رحمه الله تعالى تجوز في فصلين وهما إذا وهب مبهما أو نصفين ولا تجوز على التفاضل ،

وفي الكرخي قال ابن سماعة عن أبي يوسف رحمه الله تعالى إذا قال لرجلين وهبت لكما هذه الدار لهذا نصفها ولهذا نصفها جاز لأنه وهبها جملة وفسر بما اقتضته الجملة من الحكم بعد وقوع الهبة ولو قال وهبت لك نصفها ولهذا نصفها لم تجز لأنه أفرد أحد النصفين عن الآخر بنفس العقد فوقع العقد مشاعا ولو قال وهبت لكما هذه الدار ثلثها لهذا وثلثاها لهذا لم تجز عند أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله تعالى وجازت عند محمد رحمه الله تعالى فاتفق أبو حنيفة وأبو يوسف رحمهما الله تعالى على فساد هذا العقد من أصلين مختلفين أما أبو حنيفة رحمه الله تعالى فأفسده لوجود الإشاعة في القبض وأما أبو يوسف رحمه الله تعالى فقال لما خالف بين نصيبهما دل على أن العقد لأحدهما غير العقد للآخر فصار كأنه أفرده بالعقد ولأن القبض شرط في الهبة كالرهن كذا في السراج الوهاج

ب: کاروبار کے اس ہبہ میں مندرجہ ذیل اشیاء ہبہ کرنا مقصود ہے:

۱۔ نقدی۔

۲۔ دکان۔

۳۔ زمین۔

۴۔ مال۔

۵۔ واجب الوصول قرضے۔

۶۔ واجب الاداء قرضے۔

نقدی، مال، دکان اور زمین کا ہبہ مختلف تفصیلات کے ساتھ درست ہے، جبکہ واجب الوصول دین کا ہبہ بھی استحساناً جائز ہے بشرطیکہ موہوب لہ کو قبضے کاحکم بھی دیدیاجائے۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

ہبۃ الدین من غیر من علیہ الدین جائزۃ اذا امرہ بقبضہ استحساناً۔

و الثانی ہبۃ الدین و انہ یجوز اذا کان مشاعاً کذا فی الفتاویٰ الحمادیۃ۔

باقی رہا واجب الاداء دیون کا مسئلہ تو ان کی کفالت پر تخریج ہو گی۔ یعنی موہوب لہ نے بطریق کفالت ان کو اپنے ذمے لے لیا ہے۔ دوسری توجیہ یہ ہو سکتی ہے کہ کاروبار کا کچھ حصہ سائل نے موہوب لہم کو فروخت کیا ہے اور انہوں نے اس کی ثمن میں ان دیون کو اپنے ذمے بطریق حوالہ لے لیا ہے۔ (الا ان ھذا التوجیہ خلاف غرض الواھب)

ج: پہلے دونوں جگہ کے کاروبار کے مالک سائل ہیں، ہبہ کے نتیجے میں یہ کاروبار دوسروں کے پاس منتقل ہو رہا ہے، متعلقہ اشخاص پہلے ان حصوں کے مالک (بطریق شرکت ملک) بنیں گے اور پھر خود سائل اور ایک بیٹے کے اور اہلیہ اور دوسرے بیٹے کے درمیان شرکت عقد قائم ہو جائے گی۔ شرکت عقد حنفیہ کے اصولوں کے مطابق نقد اثاثوں کا تقاضا کرتی ہے جبکہ چلتے ہوئے کاروبار کو عملاً نقد اثاثوں میں عملاً بہت دشوار ہے اس لیے مالکیہ کے قول کے مطابق عروض کی تقویم کرائی جائے گی اور ان جامد اثاثوں کو ان کی قیمت کے اعتبار سے نئی شرکت کار اس المال سمجھا جائے گا۔ (کذا فی الشرکۃ و المضاربۃ للعثمانی) نیز یہاں بھی اگرچہ دیون راس المال بن رہے ہیں تاہم انہیں بوجہ تبعیت گوارا کیا جائے گا۔ یا یہ کہا جائے گا کہ دیون فی الحال شرکۃ العقد کا حصہ نہیں ہیں تاہم جب وہ وصول ہو کر  آتے جائیں گے تو شرکت کا حصہ بنتے جائیں گے اور اس طرح ہونے میں کوئی شرعی رکاوٹ نہیں ہے۔

6۔            اگرچہ اصلاً ایک شریک دوسرے شریک کو اپنا دوسرا کام کرنے سے نہیں روک سکتا اس لیے اس شق کی حیثیت وعدے کی ہے تاہم جب معاہدہ ہو جائے گا تو اس کی پابندی ضروری ہو گی کیونکہ اس کی پابندی نہ کرنے کے نتیجے میں پہلے کاروبار میں توجہ بٹتی ہے اور بعض صورتوں میں مفادات کا ٹکراؤ (Confict of interest) بھی بن جاتا ہے، اس قسم کی وجوہات کی بناء پر موجودہ زمانے میں تاجروں کے ہاں اس شرط کا رواج ہو چکا ہے۔ چنانچہ شرکت میں ایک شریک دوسرے شریک کو بالخصوص عامل شریک کو اس بات کا پابند بناتا ہے کہ تم اس کے علاوہ کام نہیں کرو گے یا اس قسم کا کام نہیں کرو گے۔ شرعاً اس شرط کی پابندی کروانے میں حرج نہیں۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved