- فتوی نمبر: 10-6
- تاریخ: 30 اپریل 2017
- عنوانات: حظر و اباحت > تصاویر
استفتاء
کیا چھوٹے نابالغ بچوں کو ایسے لباس پہنائے جا سکتے ہیں جن میں جانوروں یا اور جانداروں وغیروہ کی تصاویر موجود ہوں کیونکہ آج کل اکثر کپڑے بازاروں میں ایسے ہی ملتے ہیں؟ اگر کوئی تحفے میں دے تو کیا کریں؟ کیا کسی اور کو تحفے میں دے دیں یا ضائع کر دیں؟ اگر بچے نے ایسے کپڑے پہنے ہوں اور وہ نماز میں سامنے آجائے تو کیا نماز ہو جاتی ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ اگر تصویر اتنی چھوٹی ہے کہ متوسط بینائی والا شخص تصویر کو زمین پر رکھ کر اسے کھڑے ہو کر دیکھے تو وہ نمایاں نظر نہیں آتی تو ایسی تصویر اگرچہ بنانا ناجائز ہے لیکن ایسی تصویر والے کپڑے پہننانے کی گنجائش ہے۔ اور اگر تصویر نمایاں نظر آتی ہو تو ایسے کپڑے پہنانا درست نہیں ہے۔
2۔ اس کپڑے میں سے چہرہ مٹا دیں یا چہرے پر پھول وغیرہ لگا کر پہنا دیں۔
3۔ ایسے کپڑے پہنے ہوئے بچے کے از خود سامنے آجانے سے نماز میں فرق نہیں پڑتا۔
فتاویٰ تاتارخانیہ (2/203) میں ہے:
وكذلك يكره في ثوب فيه تصاوير وفي التهذيب: ولو كانت على وسادة منصوبة بين يديه يكره ولو كانت ملقاة على الأرض لا يكره، الهداية: أنه يكره لو كانت على الستر وأشدها كراهة أن يكون أمام المصلي ثم فوق رأسه ثم على يمينه ثم على شماله ثم خلفه.
فتاویٰ شامی (2/416) میں ہے:
(وكره لبس ثوب فيه تماثيل) ذي روح، وأن يكون فوق رأسه أو بين يديه أو (بحذائه) بيمينه أو يساره أو محل سجوده (تمثال) ولو في وسادة منصوبة لا مفروشة…. قوله (لبس ثوب فيه تماثيل) عدل عن قول غيره تصاوير لما في المغرب: الصورة عام ذي روح أو غيره والتمثال خاص تمثال ذي الروح، ويأتي أن غير ذي الروح لا يكره. قال القهستاني: وفيه إشعار بأنه لا تكره صورة الرأس. وفيه خلاف كما في اتخاذها كذا في المحيط. قال في البحر وفي الخلاصة: وتكره التصاوير على الثوب صلى فيه أو لا، وهذه الكراهة تحريمية.
فتاویٰ شامی (2/ 411) میں ہے:
وصلاته إلى وجه إنسان ككراهة استقباله فالاستقبال لو من المصلي فالكراهة عليه، وإلا فعلى المستقبل ولو بعيداً.
عمدۃ الفقہ (2/270) میں ہے:
’’اسی طرح نماز پڑھنے والے کی طرف منہ کرنا بھی مکروہ تحریمی ہے پس اگر منہ کرنا نمازی کے فعل سے ہو گا تو کراہت نماز پر ہے ورنہ کراہت اس دوسرے شخص پر ہے جس نے نمازی کی طرف منہ کیا۔‘‘۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved