• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

’’بھاڑ میں جائے نماز ‘‘کہنے کا حکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک بیوی نے اپنے شوہر سے مزاح میں رقم کا مطالبہ کیا شوہر نے کہا ابھی نماز کا وقت ہے بیوی نے کہا ’’بھاڑ میں جائے نماز‘‘ آیا ان الفاظ سے بیوی کے ایمان پر کچھ فرق پڑتا ہے یا نہیں؟ جزاکم اللہ

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت  میں یہ جملہ کہنے سے کہ ” بھاڑ میں جائے نماز” بیوی کا ایمان زائل نہیں ہوا اور نہ ہی نکاح  ٹوٹا ہے، کیونکہ عورتیں ایسے الفاظ اپنے محاورہ اور عادت کے طور پر استعمال کرتی ہیں،ایسے الفاظ سے شریعت کے احکام کی توہین مقصود نہیں ہوتی،نیز بعض اوقات مذکورہ جملے سے اپنے آپ کو کوسنا مقصود ہوتا ہے، اور اگر نماز کو کوسنا مقصود ہو تو یہ مطلق نماز کو نہیں کہا بلکہ خاوند کی اس نماز کو کہا ہے جس کو خاوند نے مطالبہ ٹلانے کے لئے بیوی کے سامنے ایسے موقع پر رکھا،اس بے احتیاطی میں خاوند بھی کسی درجے میں شریک ہے کیونکہ اس نے ایسے موقع پر دین کی بات کو ڈھال بنایا۔

البتہ بہتر یہ ہے کہ بیوی توبہ و استغفار بھی کرے اور تجدید نکاح بھی کرے۔

فرہنگ آصفیہ (1/402)میں ہے:

"بھاڑ میں پڑے یا جائے(دعائے بد) چولہے میں جائے،آگ لگے،(جب کوئی بات مرضی کے خلاف ہو تو اس سے اکراہ ظاہر کرنے کے واسطے یہ لفظ زبان پر لاتے ہیں)

علمی اردو لغت صفحہ(269)میں ہے:

"بھاڑ میں پڑے” (ار بددعا) (عورت) کوسنا۔

 

امدادالاحکام(1/141) میں ہے:

’’الجواب: قال في الخلاصة: الجاهل إذا تكلم بكلمة الكفر ولم يدر أنها كفر، قال بعضهم لا يكون كفراً ويعذر بالجهل وقال بعضهم يصير كافراً، ومنها أنه من أتي بلفظة الكفر وهو لم يعلم أنها كفر، إلا أنها أتى بها عن اختيار يكفر عند عامة العلماء خلافاً للبعض ولا يعذر بالجهل، أما إذا أراد أن يتكلم فجرى على لسانه كلمة الكفر والعياذ بالله من غير قصد لا يكفر (4/383)، وفي الدر: واعلم أنه لا يفتٰی بكفر مسلم أمكن حمل كلامه على محمل حسن أو كان في كفره خلاف، ولو رواية ضعيفة، قال الشامي: وهذا لا ينافي معاملته بظاهر كلامه فيما هو حق العبد وهو طلاق الزوجة وملكها لنفسها بدليل ما صرحوا من أنه إذا أراد أن يتكلم بكلمة مباحة فجرى على لسانه كلمة الكفر خطأ بلا قصد لا يصدقه القاضي وإن كان …. لا يكفر بينه و بين ربه … إلى أن قال: نعم سيذكر الشارح أن ما يكون كفراً اتفاقاً يبطل العمل والنكاح وما فيه خلاف يؤمر بالاستغفار والتوبة وتجديد النكاح، وظاهره أنه أمر احتياط. (3/446)

صورت مسئولہ میں عورت کا ایمان زائل نہیں ہوا، نہ نکاح باطل ہوا کیونکہ عورتیں ایسے الفاظ اپنے محاورہ اور عادت کے طور پر استعمال کرتی ہیں، کفر کی نیت سے نہیں استعمال کرتیں، نیز بعض دفعہ جھاڑو مار کے لفظ سے اپنے آپ کو کوسنا مقصود ہوتا ہے، اسی طرح نماز کو روگ اور بوجھ کہنے سے اپنے اوپر بوجھ کا ہونا مقصود ہوتا ہے، اس لیے ا س سے کفر لازم نہیں آتا۔

فی العالمگیرية: ولو قال عند مجيء شهر رمضان آمد آں ماه گراں إن قال ذلك تهاوناً بالشهور المفضلة يكفر، وإن أراد به التعب لنفسه لا يكفر. (3/163)

مگر عورتوں کو آئندہ کے لیے سخت تنبیہ کر دی جائے، احکام شرعیہ کی بابت ایسے الفاظ نہ بولا کریں اور احتیاطاً توبہ و تجدید نکاح کر لیں تو بہتر ہے۔‘‘

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved