- فتوی نمبر: 3-46
- تاریخ: 05 دسمبر 2009
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
میرےچچا*** فوت ہو گئے ہیں اور ان کی فوتگی سے پہلے میری چچی ***انتقال کر گئیں تھیں۔ ان دونوں کی کوئی اولاد نہیں ہے۔*** کے چار بھائی اور تین بہنیں تھیں، جبکہ ان کی زندگی میں چار بھائی اور دو بہنیں فوت ہوچکی ہیں۔ ان کی اب ایک حقیقی بہن زندہ ہے اور جو بھائی بہنیں فوت ہو چکے ہیں ان کی اولاد زندہ ہے جن میں 12 بھتیجے، 8 بھتیجیاں، 5 بھانجے، اور 5 بھانجیاں شامل ہیں۔
***کے خاندان میں تین بھانجے، دو بھانجی اورایک بھتیجی زندہ ہے۔
*** کی ملکیت میں ایک عدد مکان ہے جو انہوں نے اپنی کمائی سے بنوایا تھا اور اس مکان کی رجسٹری ***کے نام ہے، دونوں میاں بیوی نے باہمی اتفاق رائے سے ایک وصیت لکھوائی تھی کہ ہم دونوں میں جس کا انتقال پہلے ہوگا اس کے نام کی پراپرٹی جو زندہ ہوگا اس کے نام ہو جائیگی۔ اب سوال یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں کون کون شرعی طور سے وارث بنتےہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
صرف رجسٹری میں نام کرانے سے مذکورہ مکان شرعاً بیوی کی ملکیت میں نہیں آیا جب تک بیوی کو یہ نہ کہا ہو کہ یہ مکان تمہیں دیا۔ لہذا مکان میاں نذیر احمد کا ترکہ ہی شمار ہوگا۔ جس کے کل 24 حصے کر کے اس میں سے 12 حصے ان کی بہن کو اور ایک ایک حصہ ہر بھتیجے کو ملے گا۔ جبکہ باقی تمام لوگ محروم رہیں گے۔صورت مسئلہ یہ ہے:
2×12=24
۱ بہنٍٍ ۱۲ بھتیجے ۸ بھتیجیاں ۵ بھانجے ۵ بھانجیاں
2/1 باقی محروم محروم محروم
12×1 12×1
12 1+1+1+1+1+1+1+1+1+1+1+1
نوٹ: زیورات بظاہر عورت کی ہی ملکیت ہیں*** کو ترکہ میں سے نصف ملیں گے۔ لہذا اگر ان کے بارے میں پوچھنا چاہیں تو عورت کی وفات کے وقت اس کے ورثاء کی پوری تفصیل لکھیں۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved