• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

بلا اجازت کسی کے مواد کی کاپی چھاپنا اور لوگو استعمال کرنا

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اور مفتیان دین اس مسئلہ کے کہ

فریق اول:*** صاحب

فریق دوم:***صاحب

فریق سوم: ***صاحب

یہ کہ فریق اول بڑی محنت سے اپنے بیانات تیار کر کے بیان فرماتے ہیں جو کہ عوام الناس اور طلباء کرام  اور علماء کرام کے لیے مفید ہوتے ہیں۔ فریق دوم فریق اول کے حکم پر ان کو کتابی شکل میں لاتا ہے، بیانات کو لکھنے والوں، کمپوزنگ کرنے والوں، پروف ریڈنگ اور تخریج کرنے والوں سب کی مالی اعانت کی جاتی ہے۔ باقاعدہ ایک شعبہ قائم ہے۔ ان کی تنخواہیں مقرر ہیں۔

کتاب کی تیاری کا اگلا مرحلہ یہ ہے:

1۔ مشینوں کے ذریعہ پرنٹنگ مواد کے چارجز دے کر پوزیٹو بنانے کے بعد پلیٹیں بنائی جاتی ہیں، پھر کتاب کو چھپوایا جاتا ہے۔

2۔ کتاب کے سرورق یعنی ٹائٹل بھی کسی ڈیزائز سے بنوایا جاتا ہے۔ اس کی بھی اجرت دی جاتی ہے۔ پھر پرنٹ کیا جاتا ہے۔

جب یہ کتاب عوام میں، دینی حلقوں میں شہرت پکڑ لیتی ہے کچھ طالع آزما، مفاد پرست ٹولہ یعنی فریق نمبر 3 فریق دوم کی رضا مندی کے بغیر چوری کتاب کو سکین کر کے غیر معیاری کاغذ پر فریق دوم کا ٹریڈ مارک (لوگو) اور ٹائٹل لگا کر فریق دوم کی طرف سے چھپوا کر مارکیٹ میں سیل کر کے فریق دوم کو کافی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ جبکہ مندرجہ بالا تفصیل کے مطابق فریق دوم نے خطیر رقم لگا کر تیار کی ہوتی ہے۔ اور فریق سوم ایک اور جسارت کر کے فریق دوم کے ٹریڈ مارک (لوگو) اور ٹائٹل کو لگا کر جھوٹ بول کر اپنی کتاب سیل کرتا ہے۔

اور قانونی طور پر بھی فریق دوم کو کاپی رائیٹ حقوق حاصل ہوتے ہیں اور کتاب میں ہر قسم کی غلطی اور حوالہ جات کی ذمہ داری بھی فریق دوم کی ہوتی ہے۔ اگر فریق سوم اس میں کسی قسم کی کوئی تحریف کر دے، لوگو فریق دوم کا ہونے کی وجہ سےفریق دوم کو ہی اس تحریف کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا، کیونکہ قانونی طور پر کوئی ادارہ کسی دوسرے ادارہ کی کتاب نہیں چھپوا سکتا۔

کیا فریق سوم کا یہ دھندا جائز ہے یا ناجائز ہے؟ اگر ناجائز ہے تو اس طرح کمایا ہوا منافع کی کیا حیثیت ہے؟ شریعت مطہرہ کی روشنی میں مفصل جواب ارشاد فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

فریق سوم کا ذکر کردہ عمل جائز نہیں۔ کیونکہ اولاً تو فریق سوم نے فریق دوم کے مواد کی کاپی کر کے اسے چوری کیا۔ اور ثانیاً ’’لوگو‘‘ بھی فریق دوم کا استعمال کر کے لوگوں کے لیے دھوکہ دہی کا سبب بنا۔ لہذا اس طریقے سے کمایا ہوا نفع بھی گناہ  سے خالی نہیں۔ البتہ اگر فریق سوم یہ کرتا کہ ذکر کردہ مواد کی اپنی کتابت کروا کر اپنے نام سے اسے شائع کرتا تو اس کی گنجائش تھی۔

بحوث فی قضایا فقہیہ معاصرہ میں ہے:

وأما بغير إعلان فإن انتقال الاسم أو العلامة إلى منتج آخر يسبب اللبس والخديعة للمستهلكين واللبس والخديعة حرام لا يجوز بحال…… فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved