• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر

بیوہ کا حصہ اس کی اجازت کے بغیر فروخت کرنا

استفتاء

جناب مفتی صاحب !گذارش ہے کہ میرے گھر کے سامنے تین بھائی رہتے تھے ان کے مکان کی رجسٹری ان تینوں بھائیوں کے نام تھی ۔ان میں سے ایک بھائی کا انتقال ہو گیا ۔اس بھائی نے جس عورت سے شادی کی تھی وہ پہلے سے مطلقہ تھی اور اس کی کوئی اولاد نہیں تھی اور اس عورت کے شناختی کارڈ پر پہلے خاوند کا نام درج تھا ۔شادی کے بعد اس بھائی کا ایک بیٹا پیدا ہوا اور کچھ ہی عرصے میں اس بھائی کا انتقال ہو گیا ۔(شناختی کارڈ پر بدستور پہلے خاوند کا نام درج تھا)

مرنے والے کے دوسرے دوبھائیوں نے میرے ساتھ مکان کا 35لاکھ روپے میں سودا کیا ۔طے یہ پایا تھا کہ میں ان کو موجود بھائیوں کا جتنا حصہ بنتا ہے وہ پیسے دے دوں وہ دونوں اپنے اپنے حصوں کی رجسٹری میرے نام کروادیں گے ۔بیوہ اور بچے کے حصے  آپس میں سیٹنگ کرکے جب میرے نام رجسٹری کروائیں گے تو میں اس کے پیسے بھی دے دوں گا ۔

دوبھائیوں نے معاملہ فورا کر لیا ۔لیکن بیوہ کسی صورت نہ مانی (اس کو کچھ تحفظات تھے کہ مکان میں اوپر کمرہ  اس نے تعمیر کروایا تھا اس کے پیسے پہلے اسے دیئے جائیں) اس سے بات کرتے کرتے تقریبا چھ سال ہو چکے ہیں وہ کسی صورت راضی نہیں ہوتی اور اب مکان کی قیمت بھی 60 لاکھ روپے چکی ہے ۔

اب بھائیوں نے عدالت سے اپنے فوت شدہ بھائی کا حصہ فروخت کرنے کا NOCحاصل کر لیا ہے۔انہوں نے عدالت سےNOCاس بنیاد پر لیا ہے کہ ان کابھائی غیر شادی شدہ تھا اس کا کوئی بیوی بچہ نہ ہے اور وہی دونوں وارث ہیں ۔کیونکہ نادرا میں جب بیوی رجسٹرڈ نہ ہو اولاد کی رجسٹریشن نہیں ہوتی ۔)NOCحاصل کرنے کے بعد وہ دونوں بھائی باقی ماندہ حصہ فروخت کررہے ہیں۔چاہوں تو میں ان کو پیسے دے دوں یا کوئی اور دے دے، وہ دونوں بھائی یہ تو کہتے ہیں کہ ہم بچے کو بالغ ہونے کے بعد اس کا حصہ دیں گے ۔لیکن میرا اندازہ یہ ہے کہ ان بھائیوں کی موجود مالی حالت بہت اچھی نہیں ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ اسے بالغ ہونے پر حصہ دیں اور ہو سکتا ہے کہ نہ دیں ۔میرا  آپ سے سوال ہے کہ اگر میں ان سے باقی ماندہ حصہ خریدتا ہوں اور وہ بیوہ اور بچے کے ساتھ کوئی بھی سلوک کرتے ہیں تو میں یتیم اور بیوہ کا مال کھانے والا تو نہیں بنتا ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اس مکان میں تیسرا حصہ بیوہ اور یتیم بچے کا ہے جو کہ  آپ کو بھی معلوم ہے اور یہ بھائی بیوہ اور پتیم بچے کا حصہ فروخت کرنے کے مجاز نہیں،زیادہ سے زیادہ اپنا حصہ فروخت کر سکتے ہیں ۔لہذا  آپ کے لیے ان سے بیوہ اور یتیم بچے کا حصہ خریدنا شرعا جائز نہیں ۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved