- فتوی نمبر: 23-219
- تاریخ: 23 اپریل 2024
- عنوانات: عبادات > نماز > نماز پڑھنے کا طریقہ
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ نماز میں حرف "ض” کو "ظ” یا "ذ” پڑھنے کی شرعاحیثیت کیا ہے؟ کیا اس سے نماز پر کوئی فرق پڑ سکتا ہےیا نہیں؟
الجواب باسمہ تعالی
نماز میں لفظ ض کو ظ یا ذ پڑھنے سے اگر معنیٰ فاسد ہوتا ہے تو اس طرح پڑھنے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے اور جہاں لفظ ضاد کو ظ یا ذ پڑھنے سے اگر معنیٰ فاسد نہ ہوتا ہوں تو وہاں ضاد کو ظ اور ذ پڑھنے سے نماز فاسد نہیں ہوتی ہے۔ کما فی الھندیۃ:
"وإن غير المعنى فإن أمكن الفصل بين الحرفين من غير مشقة كالطاء مع الصاد فقرأ الطالحات مكان الصالحات تفسد صلاته عند الكل وإن كان لا يمكن الفصل بين الحرفين إلا بمشقة كالظاء مع الضاد والصاد مع السين والطاء مع التاء اختلف المشايخ قال أكثرهم لا تفسد صلاته هكذا في فتاوى قاضي خان وكثير من المشايخ أفتوا به قال القاضي الإمام أبو الحسن والقاضي الإمام أبو عاصم إن تعمد فسدت وإن جرى على لسانه أو كان لا يعرف التميز لا تفسد وهو أعدل الأقاويل والمختار هكذا في الوجيز للكردري” فتاوی ھندیہ الباب الرابع فی صفۃ الصلاۃ، فصل خامس فی زلۃ القاری ص ۷۹
کیا یہ فتوی درست ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
لفظ "ض ” کو "ظ” یا "ذ” پڑھنے سے نماز کے فساد کاتعلق نمازی سے ہے کہ اگر نمازی حروف کے اصل مخارج کو جانتا ہواور حروف کی صحیح ادائیگی پر قادر بھی ہو تو اس صورت میں جان بوجھ کر یا بے پروائی سے حرف "ض” کی جگہ "ظ” یا "ذ” پڑھنے سے نماز فاسد ہو جائے گی اور جو نمازی ایسا نہ ہو اس کی نماز فاسد نہ ہو گی۔
فتاوی العالمگیریۃ، کتاب الصلوۃ، الباب الرابع فی صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس فی زلۃ القاری (طبع: مکتبہ رشیدیہ، جلد نمبر صفحہ نمبر ) میں ہے
"وإن كان لا يمكن الفصل بين الحرفين إلا بمشقة كالظاء مع الضاد والصاد مع السين والطاء مع التاء اختلف المشايخ قال أكثرهم لا تفسد صلاته هكذا في فتاوى قاضي خان وكثير من المشايخ أفتوا به قال القاضي الإمام أبو الحسن والقاضي الإمام أبو عاصم إن تعمد فسدت وإن جرى على لسانه أو كان لا يعرف التميز لا تفسد وهو أعدل الأقاويل والمختار هكذا في الوجيز للكردري”
جواہر الفقہ، فصل فی القراءۃ والتجوید، رفع التضاد عن احکام الضاد (طبع:مکتبہ دار العلوم کراچی، جلد نمبر 3صفحہ نمبر36) میں ہے
"لیکن فساد نماز کے بارے میں فتویٰ اس پر ہے ،کہ اگر جان بوجھ کر یا بے پروائی سے باوجود قادر بالفعل ہونے کے ایسا تغیر کر لے کہ ضاد کی جگہ دال یا ظاء خالص پڑھے، تو نماز فاسد ہو جائے گی۔اور اگر بوجہ ناواقفیت اور عدم تمیز ایسا سرزد ہو جائے، اور وہ اپنے نزدیک یہی سمجھے کہ میں نے حرف ضاد پڑھا ہے، تو نماز صحیح ہو جائے گی۔
جس کا حاصل یہ ہوا کہ عوام کی نماز تو بلا کسی تفصیل و تنقیح کے بہرحال صحیح ہو جاتی ہے، خواہ ظاء پڑھیں یا دال یا زاء وغیرہ کیونکہ وہ قادر بھی نہیں اور سمجھتے بھی یہی ہیں کہ ہم نے اصلی حرف ادا کیا ہے ،اور قراء مجودین اور علماء کی نماز کے جواز میں تفصیل مذکور ہے، کہ اگر غلطی قصداً یا بے پروائی سے ہو تو نماز فاسد ہے اور سبقت لسانی یا عدم تمیز سے ہو، تو جائز وصحیح ہے”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved