- فتوی نمبر: 6-330
- تاریخ: 12 اپریل 2014
- عنوانات: مالی معاملات > منتقل شدہ فی مالی معاملات
استفتاء
سرکاری سکول اور کالج کی استانیوں کی امتحانات اور الیکشن کے موقع پر کسی بھی جگہ ڈیوٹی لگ جاتی ہے اور استانی صاحب اپنی جگہ کسی غریب عورت کو بھیج دیتی ہے کہ تم یہ کام کرو، یعنی تم میری جگہ ڈیوٹی کرو۔ وہ عورت اس کی جگہ ڈیوٹی کرتی ہے اور اس کی جو رقم حکومت کی طرف سے ملتی ہے وہ بھی وہ غریب عورت لیتی ہے۔ آیا ایسا کرنا شریعت مطہرہ کی رو سے جائز ہے یا نا جائز؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں اس استانی کے لیے اپنی جگہ کسی اور سے کام کروانا درست نہیں، کیونکہ یہ کام حکومت نے خاص استانی کو کرنے کو کہا ہے اور اس کی طرف سے کسی دوسرے کو اپنی جگہ مقرر کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔
(لا يستعمل غيره) و لو غلامه أو أجيره قهستاني لأن المعقود عليه العمل من محل معين فلا يقوم غيره مقامه كما إذا كان المعقود عليه المنفعة بأن استأجر رجلاً شهراً للخدمة لا يقوم غيره مقامه لأنه استيفاء للمنفعة بلا عقد زيلعي. (رد المحتار: 9/ 31)
لیکن اگر استانی کو کچھ مجبوری ہو مثلاً گھر سے بے گھر ہونا پڑتا ہے یا استانی بیمار ہے یا پردے کی مجبوری ہے اور وہ اس کام سے انکار بھی نہیں کر سکتی تو وہ کسی دوسری عورت کو اپنی جگہ بھیج سکتی ہے جو وہ کام کرنے کی اہلیت رکھتی ہو۔
(إلا الظئر فلها استعمال غيره) بشرط و غيره. قال العلامة الشامي: (بشرط و غيره) ليكن سيذكر الشارح في الإجارة الفاسدة عن الشرنبلالية أنها لو دفعته إلی خادمتها أو استأجرت من أرضعته لها الأجر، إلا إذا شرط إرضاعها علی الأصح، و كأن وجه ما هنا أن الإنسان عرضة للعوارض فربما يتعذر عليها إرضاع الصبي فيتضرر فكان الشرط لغواً. (الدر مع رد: 9/ 31)
© Copyright 2024, All Rights Reserved