- فتوی نمبر: 3-284
- تاریخ: 01 ستمبر 2010
- عنوانات: مالی معاملات > منتقل شدہ فی مالی معاملات
استفتاء
میرا نام زید (فرضی نام)ہے اور میں اپنے گھر کا واحد کفیل ہوں۔ میں اسٹاک ایکسچینج میں ایک بروکر کے پاس ملازم ہوں۔ میرا کام لوگوں کو مارکیٹ میں انو سمنٹ کروانا ہے۔ ہمارے ہاں کام جس نوعیت سےکیا جاتا ہے اس کی وجہ سے میں کافی پریشان ہوں کہ آیا یہ کام اسلام کی رو سے جائز ہے یا نہیں؟ کام کی نوعیت ایسے ہے کہ مثلاً ایک شخص کے پاس 10 لاکھ روپے ہیں اور وہ اس پیسے سے 10000 حصص خریدتا ہے مارکیٹ اگر تیز چل رہی ہے تو اگر وہ چاہے تو وہ اور حصص خرید لیتا ہے حالانکہ اس کے پاس ان حصص کے لیے پیسہ نہیں ہوتا۔ اس کے پاس دو طرح کی اوپشن ہوتی ہیں کہ مارکیٹ ختم ہونے تک وہ اپنا مال جو اس نے بغیر پیسوں کے خریدا ہے سیل کر لے خواہ اسے منافع ہو یا نقصاں ۔اور دوسرا راستہ یہ ہے کہ ہم اسے بنک سے لون لے دیتے ہیں اور وہ تب تک اس کا سود بھرتا ہے جب تک وہ اپنے حصص سیل نہ کردے یا پھر ان حصص کی اصل مالیت بنک کو ادا نہ کردے۔ اس ٹرانفریکشن میں بروکر بنک کے لیے اس گاہک کی گارنٹی بھی دیتا ہے ، بروکرت کی اسکیم کا ذریعہ گاہک کی خرید و فروخت پر لگنے والی کمیشن ہوتا ہے ۔ خواہ وہ یعنی گاہک پورے پیسے دے کر کر ے یا آدھے پیسے دے کر، زیادہ حصص خریدے۔
میں جس کمپنی میں کام کر رہاہوں اس کمپنی نے اپنے مالیاتی امور چلانے کے لیے بنک سے قرض لے رکھا ہے۔ اور اس کا سود مستقل بنیاد پر ادا کرتی ہے۔ اس کمپنی کے پاس اپنی بھی کچھ رقم ہے جو وہ سود پر دیتی بھی ہے۔ اسٹاک مارکیٹ میں ہر طرح کے حصص کا کاروبار ہوتا ہے۔ جن میں بنک، انشورنس، اور لیزنگ کی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ جب گاہک ہمیں ان کمپنیوں کے حصص خریدنے یا فروخت کرنے کو کہتا ہے تو ہم اس کے لیے کمپیوٹر میں یہ انٹری کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں تمام گاہک اس غیر اسلامی طریقے سے کام نہیں کرتے۔ بہت سارے گاہک اپنی حدود میں رہ کر بھی کام کرتے ہیں مگر یہ گاہک آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں۔ میں خود لوگوں کو مارکیٹ میں کام کرنے کو نہیں کہتا بلکہ لوگوں کو جہاں تک ہوتا ہے سمجھانے کی کوشش کر تاہوں اور لوگ میری بات پر عمل بھی کرتےہیں۔لیکن اب مارکیٹ میں کام نہ ہونے کی وجہ سے بروکر کے اخراجات پورے نہیں ہو رہے اور میرے مالکان نے صاف کو جس میں بھی شامل ہوں کہا ہے یہ لوگوں کو مارکیٹ میں کام کرنے کے لیے کہو اور زیادہ سے زیادہ حصص کی خرید و فروخت کرواؤ، تاکہ کمپنی کے اخراجات پورے ہو سکیں۔ اب ظاہر ہے کہ یہ کام کسی بھی طرقہ سے کروانا ہوگا یعنی پیسوں کےساتھ یا پیسوں کے بغیر۔
میں یہ جاننا چاہتاہوں کہ آیا میری یہ نوکری اور نوکری سے ملنے والی تنخواہ جائز ہے کہ نہیں؟ اور کیا مجھے میری یہ نوکری فوراً چھوڑ دینی چاہیے جبکہ میرے پاس آمدنی کا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے۔ مہربانی فرما کر اپنی رائے سے مجھے اس مشکل سے نکالیے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت نوکری جائز نہیں ہے۔ آپ جلد از جلد دوسری جگہ جائز ملازمت تلاش کرلیں چاہے تنخواہ میں فرق ہی ہو۔ اور جب ملازمت نہ ملے تب تک مجبوری کے درجے میں کر سکتے ہیں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved