• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

کیا حفظ کی نیت سے تلاوت کا ثواب ملتا ہے ؟

استفتاء

مفتی صاحب چند دن پہلے آپ کے دار الافتاء سے ایک مسئلہ دریافت کیا تھا کہ اگر قرآن پاک کو حفظ کی نیت سے پڑھا  جائے تو  کیا اس پر ثواب ملتا ہے ؟ اس کے جواب میں فرمایا گیا کہ ثواب ملتا ہے ۔ اس جواب سے متعلق ابھی مجھے کچھ الجھن ہے ۔ در اصل بات یہ ہےکہ ایک موقع پر میں  کہیں تلاوت  کر رہا تھا  تو بچوں نے بھی  میرے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت شروع کر دی جس پر ہمارے استاد مفتی محمد اقبال سعید ی صاحب نے بچوں کو منع کیا اور کہا  کہ جب قرآن کی تلاوت کی جا رہی ہو تو اس موقع پر خاموشی کے ساتھ قرآن سننا واجب ہے۔ اس پر بعد میں میں نے ان سے دریافت کیا کہ حضرت یہ جو بچے حفظ کرنے کے لیے قرآن پڑھ رہے ہوتے ہیں تو وہاں توان کو کوئی بھی نہیں سن رہا ہوتا تو کیا  وہ لوگ گناہ گار ہوتے ہیں ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ حفظ کی نیت سے پڑھنے کی وجہ سے وہ قرآن کے حکم میں نہیں رہا لہذا وہاں قرآن نہ سننے کا گناہ نہ ہو گا ۔ اس پر ذہن میں یہ شبہ پیدا ہوا کہ اگر  حفظ کی نیت سے قرآن قرآن باقی نہیں رہا تو کیا اس پر تلاوت کا ثواب مرتب ہو گا یا نہیں ؟ اور کیا اس قرآن کا آگے ایصال ثواب کیا جا سکتا ہے یا نہیں ؟

نوٹ : بندہ بریلوی مسلک سے تعلق رکھتا ہے لیکن آپ کے ہاں جواب تحقیق سے دیا جاتا ہے اس لیے آپ کے ہاں سے یہ مسئلہ دریافت کیا ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

حفظ  کی نیت سے قرآن پڑھنے سے قرآن ،قرآن  کے حکم سے نہیں نکلتا ،کیونکہ کسی آیت کے قرآن کے حکم سے نکلنے کی دو شرطیں ہیں :

1۔ آدمی غیر قرآن کی نیت کر ے ۔

2۔جس غیرکی نیت کرے آیت قرآنی اس غیر پر مشتمل ہو ، مثلا آدمی دعا یا حمد و ثنا کی نیت سے کسی آیت قرآنی کو پڑھے اور وہ آیت قرآنی  دعا یا حمد و ثنا ء کے معنی پر مشتمل بھی ہو تو وہ آیت قرآن کے حکم سے نکل جائے گی ، لیکن اگر آدمی غیر قرآن کی نیت  ہی نہ کرے یا کرے لیکن وہ آیت دعا یا حمد و ثنا کے معنی پر مشتمل ہی نہ ہو تو وہ آیت قرآن کے حکم سے نہیں نکلے گی مثلا اگر کوئی آدمی  تبت یدا ابی لهب  کو دعا یا حمد و ثناء کی نیت سے پڑھے تو وہ آیت قرآن ہونے کے حکم سے نہیں نکلے گی کیونکہ یہ آیات دعا یا حمد و ثناء  کے معنی پر مشتمل نہیں ۔ اس اصول کے پیش نظر حفظ کی نیت سے قرآن قرآن ہونے کے حکم سے نہیں نکلے گا  کیونکہ آیات قرآنیہ   حفظ کے معنی پر  مشتمل نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ  حضرات فقہاء کرام نے  حائضہ  یا  جنبی کو حفظ کی نیت سے یا تعلیم و تعلم کی  نیت سے ایک آیت یا اس سے زائد رواں پڑھنے کی اجازت نہیں دی بلکہ صرف ہجے کرنے کی اجازت دی ہے ،اگر حفظ اور تعلیم و تعلم کی نیت سے قرآن  کا قرآن ہونے کے حکم سے نکلنا درست ہوتا تو حضرات فقہاء کرام حائضہ اور جنبی کو بھی حفظ یا تعلیم و تعلم کی  نیت سے قرآن پڑھنے کی اجازت دیتے  واذ لیس فلیس ۔

باقی رہا یہ اشکال کہ جب حفظ کی نیت سے قرآن قرآن ہونے کے حکم سے نہیں نکلتا تو جو بچے  حفظ کے لیے اونچی آواز سے قرآن پڑھ رہے ہوتے ہیں تو وہاں قرآن سننے کے حکم پر عمل نہیں ہو رہا ہوتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ خارج ِ نماز قرآن سننے کا حکم وجوبی ہے یا استحبابی ؟ اس بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے اور عامۃ العلماء کا موقف یہ ہے کہ خارج از نماز قرآن سننے کا حکم استحبابی ہے اور قرآن کریم کی حفظ کی اہمیت کے پیش نظر اگر اس استحبابی حکم پر عمل نہ ہو تو کوئی حرج کی بات نہیں کیونکہ یہ عمل نہ کرنا ایک عذر کی وجہ سے ہے  جیسا کہ تعلیم کی آسانی کے پیش نظر عم پارہ کی طرف سے حفظ کرنے کرانے کا معمول ہے حالانکہ خلاف ترتیب پڑھنا مکرو ہ ہے ۔

فتاوی شامی ( 1/293) میں ہے :

قوله بقصده) فلو قرأت الفاتحة على وجه الدعاء أو شيئا من الآيات التي فيها معنى الدعاء ولم ترد القراءة لا بأس به كما قدمناه عن العيون لأبي الليث وأن مفهومه أن ما ليس فيه معنى الدعاء كسورة أبي لهب لا يؤثر فيه قصد غير القرآنية۔

فتاوی شامی (1/171) میں ہے :

(قوله: ولقن كلمة كلمة) هو المراد بقول المنية حرفا حرفا كما فسره به في شرحها، والمراد مع القطع بين كل كلمتين، وهذا على قول الكرخي، وعلى قول الطحاوي تعلم نصف آية نهاية وغيرها. ونظر فيه في البحر بأن الكرخي قائل باستواء الآية وما دونها في المنع. وأجاب في النهر بأن مراده بما دونها ما به يسمى قارئا وبالتعليم كلمة كلمة لا يعد قارئا اهـ ويؤيده ما قدمناه عن اليعقوبية. بقي ما لو كانت الكلمة آية ك – ص – و – ق –  نقل نوح أفندي عن بعضهم أنه ينبغي الجواز. أقول: وينبغي عدمه في – {مدهامتان}- تأمل۔

تفسیر مدارک التنزیل (1448) قدیمی کتب خانہ ) میں ہے :

ظاهره وجوب الاستماع والإنصات وقت قراءة القرآن في الصلاة وغيرها وقيل معناه إذا تلي عليكم القرآن الرسول  عند نزول فاستمعوا له و جمهور الصحابة رضي الله عنهم على أنه في استماع المؤتم وقيل في استماع الخطبة  فيهما وقيل وهو الأصح.

تفسیر  بیضاوی (سورۃ اعراف آیت 204 ) میں ہے :

(وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا لعلكم  ترحمون) نزلت في الصلاة كانوا يتكلمون فيها فأمروا باستماع قراءة الأمام والانصات له وظاهر اللفظ يقتضي وجوبها حيث يقرأ القرآن مطلقا وعامة العلماء على استحبابهما خارج الصلاة.

تفسیر مظہری (سورۃ اعراف آیت 204) میں ہے :

اختلف العلماء في وجوب الاستماع والإنصات على من هو خارج الصلاة يبلغه صوت من يقرأ القرآن فى الصلاة أو خارجها قال البيضاوي عامة العلماء على استحبابها خارج الصلاة.

فتاوی عالمگیری (5/317) میں ہے :

ولو كان القارئ واحدا في المكتب يجب على المارين الاستماع، وإن كان أكثر ويقع الخلل في الاستماع لا يجب عليهم.

فتاوی شامی(1/547) میں ہے  :

لأن ‌ترتيب ‌السور ‌في ‌القراءة ‌من ‌واجبات ‌التلاوة؛ ‌وإنما ‌جوز ‌للصغار ‌تسهيلا ‌لضرورة ‌التعليم۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved