- فتوی نمبر: 2-376
- تاریخ: 18 اگست 2009
- عنوانات: مالی معاملات > امانت و ودیعت
استفتاء
ایک شخص حکیم صاحب نے اپنی زندگی میں جائیداد (مکان ،دکانیں،پلاٹ) اپنی اہلیہ ا ور اولاد کے نام پر بنائی ۔ یعنی یہ دکانیں،مکان وغیرہ اپنی اہلیہ ،بیٹوں،بیٹی کے نام پر لکھی گئیں۔(بظاہر اس وجہ سے کہ حکومتی ٹیکسوں سے بچا جائے) اس میں سے کچھ جائیداد کسی کے نام پر زیادہ لکھی گئی۔ کسی کے نام پر کم۔ اس جائیداد کا قبضہ تمام عمر اپنے پاس رکھا یعنی اس کے کاغذات اپنے قبضہ میں رکھے جس کے نام کی جائیداد تھی اسے نہیں دیئے۔ ان مکانوں دکانوں کے کرائے وصول کرنا۔ ان کی مرمت کروانا، کرایہ داروں کو بٹھانا یا اٹھانا یہ سب وہ خود کرتے تھے۔ ان کی آمدنی خود استعمال کرتے تھے۔ اخیر عمر میں جبکہ وہ ذہنی طور پر بھی اور جسمانی طور پر بھی معذور ہوگئے تھے ۔ ان کی اولاد نے وہ کاغذات خود سنبھال لیے۔ اور باہمی طور پر طے کیا کہ ساری جائیداد کو فروخت کیا جائے ، چاہے جس کے نام زیادہ ہے یاکم ہے۔ نقد رقم آپس میں شرعی طور پر برابر تقسیم کی جائے۔ یعنی بھائیوں کو دوحصے اور بہن کو ایک حصہ دیاجائے ۔والدہ یعنی حکیم صاحب کی اہلیہ ان کی زندگی ہی میں فوت ہوگئی تھیں ۔ اس کو طے کرکے سادہ کاغذ پرلکھاگیا اور ہر ایک نے اس پر دستخط کردیئے۔ اکثر جائیداد فروخت ہوگئی اور معاہدہ کے مطابق تقسیم ہوگئی۔ تھوڑا حصہ باقی ہے ۔ کچھ عرصہ قبل حکیم صاحب کا بھی انتقال ہوگیا۔ اب ان بھائیوں مین سے ایک یہ دعویٰ کرتاہے کہ باقی جائیداد جو میرے نام کی ہے اس کا مالک میں خود ہوں۔ کسی دوسرے کو اس میں سے حصہ نہ دوں گا۔
سوال یہ ہے کہ مندرجہ بالا احوال کے مطابق مدعی کا مذکورہ دعویٰ درست ہے یانہیں؟ یعنی جس کے نام جائیداد کے کاغذات بنائے جائیں۔دنیا وی قانون کے مطابق تو وہی مالک ہوتاہے ۔ شرعی یعنی حقیقی طور پر بھی وہی مالک ہوتاہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مدعی کا مذکورہ دعویٰ درست نہیں ہے۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved