• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر

کیا ٹیکس میں صدقہ کی نیت کی جاسکتی ہے؟

استفتاء

معروف مبلغ اور عالم دین مولانا طارق جمیل صاحب کی طرف سےیہ بات بصورت ویڈیو کلپ شائع ہوئی ہے:

’’اللہ تعالیٰ کا ایک قانون ہے اور اللہ کے نبیﷺ کا فرمان ہے کہ:

’’ مانگنے والے کا رزق کبھی پورا نہیں ہوتااور صدقہ دینے والے کا رزق کبھی کم نہیں ہوتا۔‘‘اورآپﷺ نے فرمایا کہ ’’تین باتوں پر مجھ سے قسم لے لو،ضمانت لے لوکہ تم اگر خرچ کرو گے تو تمہارامال کم نہیں ہوگا۔‘‘

ہم ٹیکس کو صدقہ کی مد میں نہیں سمجھتے یہ بھی فی سبیل اللہ خرچ ہے،یہ بھی اللہ کے نام پر خرچ ہے ،اس پر بھی ہمیں اجر ملے گا ،اور اس پر بھی ہماری آفتیں اور بلائیں دور ہوں گی اور ہم جو اور ملکوں سے مانگتے ہیں وہ دروازہ بند ہوگااور ہم اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں گےتو اللہ ہمیں ایک عزت والی شان نصیب فرمائیں گے۔پاکستان میں اللہ کے فضل سے بہت بڑے بڑے لوگ ہیں جو صدقہ و خیرات کرتے ہیں،لیکن ٹیکس کو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارے اوپر بوجھ ہے،تاوان ہے،یہ ہم کیوں دیں؟ہم زکوٰۃ دیتے ہیں،صدقہ دیتے ہیں،یہ بھی صدقہ ہےکہ میرے ملک کی ضروریات پوری ہوں،میرے ملک کی تعلیم اچھی ہو،صحت اچھی ہو،سڑکیں اچھی ہوں،امن ہویہ سب چلانے کے لیئے جو بھی لوگ ٹیکس دیں گےمیں بھی قسم اٹھا سکتا ہوں کہ وہ صدقہ ہے۔آپ صدقہ کی نیت سے دیں گے تو آپ کا دل کھل جائے گاکہ ہم اللہ کے نام پر دے رہے ہیں۔

دوسری بات آپﷺنے فرمائی کہ’’ جب کسی پر زیادتی ہو اور وہ معاف کر دےتو میں ضامن ہوں کہ اللہ اس معاف کرنے والے کی عزت کو بڑھائے گا‘‘اور تیسری بات فرمائی کہ ’’جو شخص یا قوم مانگے گی تو ان کا فقر اللہ دور نہیں کرے گا‘‘

میرے عزیزو !یہ جو ہم حکومت کو دیتے ہیں آپ اس کو تاوان نہ سمجھیں آپ اس کو اللہ کے نام پر خرچ کرنا سمجھیں اور یقیناً یہ اللہ کے نام پر خرچ کرنا ہےاس سے سڑک بنتی ہے جتنے لوگ اس سے گزرتے ہیں اس کا اجر آپ کو ملتا ہے،ہسپتالوں میں مریضوں کا علاج ہوتا ہے اس کا اجر آپ کو ملتا ہے۔

آپ دیانتداری کے ساتھ ٹیکس ادا کریں اللہ آپ کے مال کو بڑھائے گا ،ہم اور چیزوں پر ماشاءاللہ اپنے طور پر کتنا خرچ کرتے ہیں تو یہ ہمارا دیس ہے اس کی حفاظت، اس کی عزت،اس کی بقاء یہ ہم سب کی بقاء ہے،ہم سب کی عزت ہے۔ فقر آدمی کو ذلیل کر دیتا ہے، ’’کاد الفقر ان یکون کفرا‘‘فقر آدمی کو کفر تک پہنچا دیتا ہے،تو میری سب پاکستانی قوم سے گزارش ہے کہ ہم اپنا دیانتداری کے ساتھ صحیح صحیح ٹیکس دیں یہ ان شاءاللہ صدقہ ہےاللہ کے نام پر۔ ‘‘

1- اس کے بارے میں مفتیان کرام کی رائے کیا ہے؟اس پر خلجان یہ ہے کہ صدقہ تو غریب لوگوں کو دیا جاتا ہے اور فلاحی کاموں سے تو امیر و غریب دونوں مستفید ہوتے ہیں جیسے سڑک – ہسپتال – سٹریٹ لائٹس وغیرہ۔

2-ٹیکس کیا چیز ہے ؟کیا ٹیکس لگانا حکومت کا غیر شرعی و غیر ضروری اقدام ہے ؟

3- جو لوگ اپنی آمدنی اور حکومت کے قانون کے مطابق پورا ٹیکس نہیں دیتے ان کیلئے شریعت کا کیا حکم ہے ؟

اکثر لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارا دیا ہوا ٹیکس صحیح جگہ استعمال نہیں ہوتا اور حکومت کے اہل کار بدعنوانی میں مبتلا ہیں ہمیں حکومت پر اعتماد و اعتبار نہیں۔

یہ ایک اہم معاملہ ہے گزارش ہےکہ تفصیل سے جواب عنایت فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔اگرچہ بعض صورتوں میں حکومت کا ٹیکس لگانا بھی جائز ہے اور جن پر ٹیکس لگایا گیا ہے ان کا ادا کرنا بھی ضروری ہے تاہم اس کے باوجود ٹیکس کو نہ صدقہ کہا جا سکتا ہے اور نہ اس پر صدقہ کا ثواب ہوگا اور نہ صدقہ کے فضائل حاصل ہوں گے، خواہ ٹیکس دینے والے کی نیت صدقے کی ہو کیونکہ شریعت میں صدقہ میں دو باتوں کا ہونا ضروری ہے (1) صدقہ اپنے اختیار سے ہو اس پر کسی کی طرف سے دباؤ نہ ہو کیونکہ صدقہ عقد تبرع ہے جس کا مطلب ہی یہ ہے کہ آدمی صدقہ کرنا چاہے تو کرے اور نہ کرنا چاہے تو نہ کرےجبکہ ٹیکس کا معاملہ آدمی کا اختیاری معاملہ نہیں لہذا اسے صدقہ کہنا ہی درست نہیں ۔(2) صدقہ کسی مستحق زکوٰۃ کو دینا ضروری ہے ۔لہذا مال دارکو صدقہ دینا اگر چہ بعض صورتوں میں جائز ہے تاہم نہ تو یہ دینا صدقہ شمار ہوگا اور نہ اس دینے پر صدقہ کا ثواب ملے گا اور نہ صدقہ کے فضائل حاصل ہوں گے۔جبکہ ٹیکس کی رقم سے امیر غریب ہر قسم کےلوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جس کی وجہ سے ٹیکس کی رقم صدقہ شمار نہ ہوگی۔

2۔ ریاستی اخراجات پورے کرنے کے لیے عوام سے جو رقم وصول کی جاتی ہے وہ ٹیکس کہلاتی ہے باقی رہی یہ بات کہ ٹیکس لگانا حکومت کا غیر شرعی اور غیر ضروری اقدام ہے یا نہیں؟ تو یہ سوال آپ کے پوچھنے کا نہیں آپ کے پوچھنے کی بات یہ ہے کہ آپ کیلئے ٹیکس ادا کرنا جائز ہے یا نہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جائز ہے۔

3۔ اس کا جواب ہر شخص کے شخصی اور ذاتی حالات کے پیش نظر دیا جا سکتا ہےاصولی جواب دینا ممکن نہیں۔

ردالمحتار (3/257) میں ہے:

’’قال في التنجيس والولوالجية:السلطان ‌الجائر إذا أخذ الصدقات قيل إن نوى بأدائها إليه الصدقة عليه لا يؤمر بالأداء ثانيا لأنه فقير حقيقة.

ومنهم من قال: الأحوط أن يفتى بالأداء ثانيا كما لو لم ينو لانعدام الاختيار الصحيح‘‘

الموسوعۃ  الفقہیہ(26/332)میں ہے:

’’الاصل ان الصدقة تعطي للفقراء والمحتاجين وهذا هوالافضل كما صرح به الفقهاء.وذلك لقوله تعالي:’’او مسكينا ذا متربة‘‘

الاختيار لتعليل المختار(3/ 50)میں ہے:

«والصدقة ‌على ‌الغني ‌هبة لأنه ليس من أهل الصدقة»

کفایت المفتی(4/123)میں ہے:

’’ایصال  ثواب کاکھاناصدقہ ہےاورصدقہ فقراءکاحق  ہےاغنیاکوصدقہ دینےسےصدقہ کاثواب نہیں ہوتا۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved