- فتوی نمبر: 4-199
- تاریخ: 10 ستمبر 2011
استفتاء
کمپنی کا ایک اصول ہے وہ بیس فیصد ڈاکٹر کا حصہ رکھتے ہیں اگر ڈاکٹر خود مانگے تو۔
۱۔ ہم جاکر اپنی ادویات متعارف کروائیں ڈاکٹر اس کےبدلے میں کچھ ہم سے مانگے مثلاً فرنیچر کوئی بھی سفیدی کلینک کے لیے۔ اپنے نام کے پیڈ چھپوائے وغیرہ۔
۲۔ ہم ان کو کوئی بھی گفٹ دے سکتے ہیں؟
۳۔ اگر کوئی ڈسپنری یا کوئی بھی ویلفیئر سوسائٹی چلا رہا ہو ( جو غریبوں کے لیے کھولی ہوئی ہوں ) اورہم سے پیسوں اور سفیدی ، فرنیچر ۔ ڈاکٹر صاحب بھی محنت کر کے ہماری دوائی لکھ رہا ہے۔ وہ اس کے بدلے میں ہم سے کوئی چیز مانگے کیا کمپنی کا فرض نہیں ہے وہ اس کو دے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
کسی شخص کے ذمے جو کام کرنا ضروری ہو اور وہ اس کی ذمہ داری بنتی ہو اس کام پراضافی پیسے یا اشیاء لینا درست نہیں بلکہ یہ رشوت ہوتی ہے۔ ایک مریض جب ڈاکٹر کے پاس آتا ہے تو اس صورت میں ڈاکٹر کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ مریض کی مالی حیثیت کا اندازہ کر کے اپنے علم کی حد تک اسے اچھا نسخہ لکھ کر دے اور اچھی کمپنی کی دوا تجویز کرے۔ چنانچہ جب ڈاکٹر کسی بھی کمپنی کی دوا تجویز کرتا ہے تو وہ اپنی ذمہ داری پوری کر رہا ہوتا ہے جس کی اجرت وہ تنخواہ یا فیس کی شکل میں پہلے سے وصول کر چکا ہے۔ اب اس پر مزید پیسوں کا مطالبہ کرنابے جا او ر رشوت ہے۔
ہاں! چھوٹا موٹا ہدیہ ( مثلاً پنسل، پیڈ وغیرہ ) جس کی وجہ سے ڈاکٹر اپنے آپ کو متعلقہ کمپنی کا پابند نہ سمجھتا ہو، اور نہ کمپنی اس کی بنیاد پر اس پر دباؤ ڈال سکتی ہو۔ ا س کا لین دین درست ہے۔ باقی رہے نسبتاً مہنگے تحائف مثلا اے سی، فرنیچر یا موبائل وغیرہ ایسے تحفائف کا مطالبہ کرنا اور ان کا لین دین بھی درست نہیں۔
نوٹ: یہ ضابطہ اور حکم ہر طرح کے ادارے اور شخص کے لیے ہے چاہے فلاحی ادارہ ہو یا پرائیویٹ۔ اس حوالے سے کوئی فرق نہیں۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved