• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مریض کے ایسا نسخہ قصدا ً تجویز کرنا جو باراز میں دستیاب نہ ہو

استفتاء

میں ایک سرکاری ادارے میں ملازم ہوں ، شعبے کے اعتبار سے ڈاکٹرہوں اوراس میں شعبہ امراض چشم میری تخصیص ہے(specialty) ہے ، اس ادارے نےاپنے بہت سے ہسپتال بنائے ہیں جن کا بنیادی مقصد اسی ادارے کے ملازمیں  اوران کے اہل خانہ کے علاوہ ہمیں سرکاری اوقات  کے بعد عام (private) مریضوں کو  دیکھنے اوران کا علاج کرنے کی اجازت ہے ، اس پر جو ہمیں فیس  ملتی ہے اس میں سے ایک مخصوص حصہ ادارے کے خزانے میں جمع کیاجاتاہے اور باقی ہمیں ملتاہے ہمیں ان مریضوں سے براہ راست  فیس لینے کی اجازت نہیں ہے ۔اس ادارے کا ایک نمائندہ یہ رقم جمع کرتاہے ۔

ویسے تواس ادارے کے  ملازمین کے لئے تقریباً تمام  طبی سہولیات مفت ہیں لیکن بعض مخصوص شعبوں میں  مخصوص علاج  ان کے لئے بھی مفت  نہیں  خصوصا آرتھوپیڈک سرجری،آنکھوں کی سرجفری ، ڈنٹیٹری اور دل کی سرجری  وغیرہ شامل  ہیں ، ان شعبوں میں بعض مخصوص آلات یا implants  مریض کے جسم میں لگائے جاتے ہیں جو اسے قیمتاً میسر آتے ہیں۔

آنکھوں کے شعبے میں جس سے میرا تعلق ہے اس کی تفصیل  یہ ہے کہ ہم سفید موتیا کا آپریشن کرتے ہیں ، اوراس آپریشن میں آنکھ کے اندر مصنوعی عدسہ (Intraocular Lens )ڈالاجاتاہے ، آپریشن اوراس کی تمام ادویات تو مفت ہیں لیکن یہ مصنوعی عدسہ  اور آپرشن میں استعمال ہونے والا  (Gel) مریض کو قیمتاًمیسرآتاہے  اس کی کوئی مخصوص صورت نہیں طے کی گئی ، عام طور پرایسا ہوتاہے کہ  ڈاکٹر کے پاس مختلف کمپنیوں کے نمائندے آکر ملتے رہتےہیں ڈاکٹران سے یہ Lenses لے کر رکھ لیتاہے اور Gel بھی ۔مریض ان چیزوں کی قیمت خود ڈاکٹر یا اس کے اسسٹنٹ کو جمع کروادیتاہے ۔اس طریقہ کا ر پر ادارے  کی طرف سے کوئی خاص یا تفصیلی ہدایت نہیں آئی ہے۔

اصل مسئلہ درپیش یہ ہے  کہ ڈاکٹروں کو یہ آلات implants Lens کمپنیوں کی جانب سے مخصوص ریٹ یا ڈاکٹر کے ریٹ پر ملتے ہیں اور ڈاکٹرز ان چیزوں پر مریضوں سے ایک مخصوص منافع لیتاہے یعنی مریضوں سے جو رقم لی جاتی ہے  وہ ان چیزوں کی اصل قیمت سے زیادہ ہوتی ہے  اورعام طور پراس ادرارے کے سارے ہسپتالوں میں سارے ڈاکٹرز ایک مخصوص رقم مریضوں سے لینے ہیں جو تقریباًیکساں  ہے اور نفع یقینی ہے اس طرح کا منافع لینا جائز نہیں بعض دوسرے احباب جو خود آنکھوں کے شعبے سے وابستہ میں ان کا کہناہے کہاپنے  ہنر اور خدمت کا عوض نہیں لیاجارہا بلکہ ایسی چیز جس کا ادارے کی طرف سے انتظام نہیں اوراس کے مہیاکرنے کی کوئی مخصوص صورت بھی طے نہیں کی گئی ، اس کے مہیا کرنے کے عوض میں یہ نفع لیا جارہا ہے ۔

جب اس مسئلہ کو بعض علماء کے سامنے رکھاگیاتو کم وبیش یہ بات سامنے آئی کہ اس ادارے کے ملازمین سے ایسا لین دین پر نفع لینا جائز نہیں اس لئے کہ ان کے علاج ہی کے لئے آپ وہاں تعینات ہیں اورآپ کی حیثیت اس  Lenses  والے  معاملے میں وکیل کی سی  ہے  اور مریض Lens کے معاملے  کا اختیار بطوور وکیل آپ کے سپرد کرتاہے اس لئے اس پر نفع لینا امانت میں خیانت ہوگا۔البتہ نفع کی ایک صورت جو ہوسکتی ہے کہ کوئی دوسرا شخص ان   Lenses   کو مہیا کرے اور کسی دکان یا میڈیکل سٹور پر رکھے اور آپ مریض کو ایسے قریبی دکان یا میڈیکل سٹور کا پتا بتادیں کہ یہ چیزیں وہاں سے لے  آؤ اس لئے کہ آپ کو اس دکان والے پراعتماد ہے تواس صورت میں وہ دکان والا Lenses   پر نفع لے سکتاہے  اوراس نفع میں سے کچھ رقم آپ کو بطور کمیشن دے سکتاہے۔بشرطیکہ آپ اس پراعتماد کرتے ہیں کہ وہ مریضوں کا ناجائز استعمال نہیں کرتاہے  اس مندرجہ  بالا رائے پر عمل کرنے میں چند دشواریاں ہیں۔

1۔کمپنی والے عام طورسے یہ Lenses مارکیٹ میں دکانوں پر نہیں رکھواتے چند وجوہ سے اس لئے ہر جگہ پر Lenses  دکانوں پر نہیں رکھوائے جاسکتے۔

2۔ہر آنکھ کے Lens کا ایک مخصوص سائز یا نمبر ہوتاہے جو ڈاکٹر مشینوں کے ذریعے سے نکالتا ہے اور اپنے مریضوں کی ضروریات کے بقدر کمپنی والوں سے منگواتا ہے ۔جسے ہی بعض نمبروں کے Lenses اس کے پاس کم ہونے لگتے ہیں وہ کمپنی سے نئے Lenses منگوالیتاہے جس کی وجہ سے آپریشن کی تاریخوں اور ان کے تسلسل میں  کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔اگر یہ مارکیٹ میں رکھے ہوں تو بروقت نمبر دستیاب نہ ہونے کی صورت میں کئی  لوگوں کے آپریشن ملتوی  کرنے پڑتے ہیں۔اس کی وجہ سے مریض کو بھی تکلیف سے گزرنا پڑتاہے اور ڈاکٹر بھی اس چیز کو اپنی ساکھ کےا عتبار سے نقصاندہ سمجھتاہے

3۔بعض Lenses نایاب نمبروں کے ہوتے ہیں جو عام طور سے ضرورت پڑنے پر منگوائے  جاتے ہیں ایسے نمبر ڈاکٹر مشینوں کے ذریعے سے معلوم کرکے اور اپنے تجربے کی بنیاد پر کمپنی والوں سے منگوالیتاہے۔ یہ بات بھی Lenses کے بازار میں موجود ہونے سے دشوار ہوجاتی ہے اس لئے کہ دکان دار ان چیزوں کی سمجھ بوجھ نہیں رکھتا،چنانچہ اس لئے پھر مریضوں کو دشواری ہوتی ہے اور تاریخیں نئی  لینی پڑتی ہیں۔

4۔آپریشن میں پیچیدگی کی صورت میں بعض مختلف نمبروں کے  مخصوص شکلوں کے Lenses کی ضرورت عین دوران آپریشن پڑجاتی ہے جواس وقت آپریشن تھیٹر یا ڈاکٹر کے پا س موجود نہ ہوں تو مریض کو اس سے نقصا ن ہوسکتاہے اور دوبارہ آپریشن کے مرحلے سے گزرنا ہوتاہے جب  وہ Lenses دستیاب ہوجائیں۔

5۔شازونادر کبھی کسی Lens  میں آپریشن کے دوران ٹوٹ پھوٹ ہوگئی یا دوران آپریشن وہ Lens حادثاتی طور پر آپریشن کی میز سے نیچے گرنے کی صورت میں متبادل       Lens کا وہیں              O.T (آپریشن تھیٹر) میں میسر ہونا ضروری ہے ۔اس لئے ان پیچیدگیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے وافر مقدار میں Lens  آپریشن تھیٹر میں رکھنا ہماری مجبوری ہے۔

یہ اور اس طرح کی کچھ اور پیچیدگیوں کی وجہ سے عملی طور پر نہ تو کمپنی والوں   نے عموماً اپنے Lenses مارکیٹ میں رکھوائے اور نہ ڈاکٹروں نے اس کی عمومی  حمایت کی۔چنانچہ جو مندرجہ بالا تجاویز بعض علماء نے بتائی  اس پر عمل بہت دشوار ہے چنانچہ ڈاکٹرز اپنے پاس ہی Lenses رکھواتے ہیں اور پیچیدگی کی صورت میں یا Lens  ضائع ہونے کی صورت میں متبادل Lens ڈال دیتے ہیں۔اور مریض سے دوبارہ قیمت نہیں لی جاتی ۔یہ صورت اس  طرح پر ممکن ہے کہ جب ڈاکٹر کے پاس نفع کی صورت  میں گنجائش ہو Lens ڈاکٹر سے دوران آپریشن ضائع ہونے کی صورت میں ڈاکٹر کواپنی جیب سے دوسرا Lens  مہیا  کرنا پڑتا ہے اگر اس کے پاس اس نفع کی صورت نہ ہوتی یا بصورت دیگر مریض کو دوبارہ آپریشن کے مرحلے سے گزرنا پڑتاہے۔

ایک اور بات جو علماء کے ذریعے سے سامنے آئی کہ سرکاری اوقات کے دوران اور کسی قسم کے  شکل یا کاروبار میں ملوث ہونابھی  درست نہیں ، لیکن کیا اس وقت میں مندرجہ بال صورت جو عمومی طور سے اختیار کی جارہی ہے وہ  جائز ہے کہ ناجائز؟

دوسرا  یہ کہ  سرکاری اوقات کے بعد جب پرائیویٹ مریضوں کو دیکھاجاتاہے اور فیس بھی ادارے کا ایک نمائندہ لیتاہے (جس کا مخصوص حصہ ڈاکٹر کو ملتاہے) اور ڈاکٹر خود اس سے فیس لینے کا مجاز نہیں تو کیا ان مریضوں سے اس طرح کا نفع  Lens پر لینا درست ہے کہ نہیں؟

میرے معاملے کی صورت یہ  ہے کہ میں Lenses تو اپنے ہی پاس کمپنیوں کے رابطے سے رکھواتاہوں لیکن ان کی قیمت خود وصول نہیں کرتا۔بلکہ ہسپتال کے سامنے ایک میڈیکل سٹور والا ان Lenses کی قیمت وصول کرتاہے کچھ عرصے بعد جب کمپنی والے مجھ سے استعمال شدہ  Lenses کی قیمت لینے آتے ہیں تو میں وہ رقم منگوالیتاہوں اور ادائیگی کردیتاہوں اس معاملے میں ہر   Lens پر ایک مخصوص رقم بطور کمیشن  کے میڈیکل سٹور والے کو دیتاہوں باقی رقم میں سے  اصل قیمت کمپنی والوں کو دے کر نفع خود رکھ لیتاہوں  گویا کہ تجارت میں خود کرتا ہوں بخلاف اس تجویز کے جو بعض علماء بتلائی کہ تجارت کوئی دوسراکرے اور نفع بھی وہ لے اور بطور کمیشن کچھ آپ کو دے دے۔

برائے مہربائی قرآن وحدیث وفقہ کی رو سے مندرجہ ذیل سوالات یا مسائل  پر فتویٰ طلب کیا جاتاہے۔

1۔مروجہ صورت جو عام طورپر اس ادارے میں ہے اس میں سرکاری مریضوں سے اس طرح کا نفع لینا جائز ہے کہ ناجائز؟

2۔اسی صورت میں جو نفع ” سول مریضوں” سے لیا جاتاہے وہ جائز ہے یا ناجائز؟

3۔آخری صورت جس پر  میں خود عمل  پیرا ہوں اس کی شرعی حیثیت ؟

4۔مروجہ صورتوں میں ڈاکٹروں کا اس قسم کا نفع لینا اگر درست نہیں ہے تو کس سطح کا ہے (حرام، مکروہ تحریمی یا مکروہ تنزیہی)؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

دیگرحضرات کے بتائے ہوئے طریقہ سے اور آپ کے اختیار کردہ طریقے سے ہمیں اتفاق نہیں ہے ۔درست طریقہ  یہ ہے کہ  آپ مریض کو Lens کا نمبر بتائیں اوراس کو اختیار دیں کہ چاہے وہ بازار سے خریدے یا آپ سے خریدے۔اس کے لئے آپ            Lens  ایسا نہ رکھیں جو بازار میں دستیاب  ہی  نہ  ہو۔اور آپ بازاری قیمت سے زائد بھی نہ لیں۔فقط واللہ تعالیٰ اعل

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved