- فتوی نمبر: 27-224
- تاریخ: 17 اگست 2022
- عنوانات: مالی معاملات > منتقل شدہ فی مالی معاملات
استفتاء
گروی مکان لینے یا دینےکی کوئی جائز صورت ہو تو تفصیل سے آگاہ فرمادیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1.گروی مکان لینے کی ایک جائز صورت یہ ہے کہ گروی پر لیے گئے مکان کا مارکیٹ ویلیو کے مطابق کرایہ ادا کیا جائے۔
2.دوسری صورت یہ ہے کہ کرایہ مارکیٹ ویلیو سے کم مقرر کیا جائے اور جتنے سالوں کے لیے مکان کرایہ پر لینا ہے اتنے سالوں کا کل کرایہ ایڈوانس دیدیا جائے ۔
3.تیسری صورت یہ ہے کہ کرایہ مارکیٹ ویلیو سےکم مقر رکیا جائے اور ا س کا کچھ حصہ ایڈوانس دیدیا جائے اورکچھ ماہ بماہ دیتے رہیں۔
4.چوتھی صورت یہ ہے کہ گروی مکان لینے کی صورت میں جو رقم ایڈوانس دی جائے اس رقم کے بدلے میں گروی والا مکان زبانی کلامی خرید لیا جائے اور مکان والے سے یہ وعدہ کر لیا جائے کہ جب وہ آپ کی دی ہوئی ایڈوانس رقم واپس کرنے پر آمادہ ہوگا تو اس رقم کے بدلے اسے یہ مکان واپس بیچ دیا جائے گا لہٰذا جب وہ رقم واپس کرے تو اس رقم کے بدلے اسے یہ مکان واپس بیچ دیا جائے۔
5.پانچویں صورت یہ ہے کہ ایڈوانس رقم کے بدلے مکان کا کچھ حصہ (مثلاً آدھا حصہ) زبانی کلامی خرید لیا جائے اور مکان والے سے یہ وعدہ کرلیا جائے …………. الخ (آگے طریقہ کار وہی ہے جو چوتھی صورت کے آخر میں ذکر ہوا) اور باقی حصے کا کچھ نہ کچھ کرایہ مقرر کرلیا جائے یا مکان والا باقی حصہ مفت استعمال کے لیے دیدے۔
تنبیہ:(1) چوتھی اور پانچویں صورت انتہائی مجبوری میں اختیار کی جائے۔
تنبیہ:(2) مذکورہ جائز صورتوں سے گروی مکان لینے والا اور دینے والا دونوں فائدہ اٹھا سکتے ہیں تاہم اگر کسی کو قرضے کی شدید مجبوری ہو اور گروی کے بغیر کوئی قرضہ دینے کو تیار نہ ہو اور قرضہ دینے والا مذکورہ بالا صورتوں میں سے بھی کسی صورت پر عمل کرنے کے لیے تیار نہ ہو بلکہ وہ گروی کا مکان مفت استعمال کرنے پر یا اس مکان کا مارکیٹ ویلیو سے کم کرایہ دینے پر ہی مصر ہو تو ایسی شدید مجبوری میں قرضہ لینے والے کے لیے گنجائش ہے تاہم قرضہ دینے والے کے لیے گروی کے مکان کو مفت استعمال کرنے کی یا مارکیٹ ویلیو سے کم کرایہ دے کر استعمال کرنے کی گنجائش نہیں۔
تنبیہ:(3) مجبور ی کا تعین از خود نہ کیا جائے بلکہ کسی معتبر دارالافتاء سے کرایا جائے۔
حاشیہ ابن عابدین(413/7)میں ہے:
كل قرض جرنفعاحرام،فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن۔
تکملۃ حاشیۃ ردالمحتار(41/1)میں ہے:
والغالب من أحوال الناس أنهم إنما يريدون عند الدفع الانتفاع، ولولاه لما أعطاه الدارهم، وهذا بمنزلة الشرط، لان المعروف كالمشروط وهو مما يعين المنع، والله تعالى أعلم۔
الدر المختار (7/580)میں ہے:
وبيع الوفاء ذكرته هنا تبعا للدرر: صورته أن يبيعه العين بألف على أنه إذا رد عليه الثمن رد عليه العين، وسماه الشافعية بالرهن المعاد، ويسمى بمصر بيع الأمانة، وبالشام بيع الإطاعة، قيل هو رهن فتضمن زوائده، وقيل بيع يفيد الانتفاع به، وفي إقالة شرح المجمع عن النهاية: وعليه الفتوى وقيل إن بلفظ البيع لم يكن رهنا، ثم إن ذكرا الفسخ فيه أو قبله أو زعماه غير لازم كان بيعا فاسدا، ولو بعده على وجه الميعاد جاز و لزم الوفاء به؛ لأن المواعيد قد تكون لازمة لحاجة الناس، وهو الصحيح كما في الكافي والخانية وأقره خسرو هنا والمصنف في باب الإكراه وابن الملك في باب الإقالة بزيادة
امداد الفتاوٰی (3/107)میں ہے:
سوال (۱۷۴۱) : ایک شخص زید اپنا گاؤں فروخت کرتا ہے، لیکن اس شرط پر کہ ایک میعاد معین کے اندر اگر زرثمن واپس کردے، تو گاؤں مبیعہ واپس لے لے ایسا معاملہ اور استفادہ اس گاؤں سے مشتری کو شرعاً جائز ہے یا نہیں ؟
۲ :ایک شخص اپنے گاؤں کو واسطے اطمینان قرضہ کے دائن کے قبضہ میں دیتا ہے، اور یہ معاہدہ ہوتا ہے فریقین میں ، کہ تا ادائیگی قرضہ کے وہ اس گاؤں پر قابض اور متصرف رہے اور اس کا انتظام اور حفاظت اور سرکاری مطالبہ اور جملہ نفع ونقصان جو کچھ بھی ہو وہ ذمّہ دائن کے ہوگا، مدیون کو نفع ونقصان سے کچھ سروکار نہ ہوگا، اور حال یہ ہے کہ ایسی صورت میں بظاہر اکثر فائدہ اور گاہے نقصان ہوتا ہے۔ مثلاً خشک سالی ہو جاوے، مزارعان فرار ہو جائیں ، سرکاری مطالبہ دینا پڑے۔ لہٰذا ایسا معاملہ شرعاً جائز ہے یا نہیں ؟
الجواب: صورت مندرجہ سوال اول ظاہراً بیع وقصداً رہن ہے، اور صورت مندرجہ سوال ثانی صریح رہن ہے، سو رہن صریح میں تو اگر انتفاع مرتہن کا مشروط یا معروف ہو بلا اختلاف حرام ہے۔
في الدر المختار: ثم نقل عن التهذيب أنه یکرہ للمرتهن أن ینتفع بالرهن، وإن أذن له الراهن قال المصنف: وعليه یحمل ما عن محمد بن أسلم رحمه الله من انه لا یحل للمرتهن ذلک ولو بالإذن؛ لأنه ربوا، قلت: وتعليله یفید أنها تحریمة فتامله اھ۔ قلت:هذا في المشروط، وقد تقرر أن المعروف کالمشروط
اور رہن قصداً وبیع ظاہراً کوبیع الوفاء کہتے ہیں سو اصل قواعد مذہب کی رو سے یہ بھی رہن ہے، اورانتفاع اس سے حرام ہے اور اگر وہ بیع ہے تو بوجہ مشروط ہونے کے بیع فاسد ہے تب بھی حرام ہے، لیکن بعض متاخرین نے اجازت دی ہے پس بلا اضطرار شدید تو اس کا ارتکاب نہ کرے، اور اضطرار شدید میں بائع کو اختیار ہے کہ فتویٰ متاخرین پر عمل کرے، اگر چہ مشتری کو کوئی اضطرار نہیں ۔ والتفصیل في الدرالمختار قبیل کتاب الکفالة۔
فتاوی تاترخانیہ (124/15) میں ہے :
قال محمد فى رجل اجر نصف داره مشاعا من اجنبي لم يجز واذا سكن فيها يجب اجر المثل وهذا قول ابي حنيفة وقال ابو يوسف و محمد والشافعى يجوز واذا سكن فيها يجب المسمى واذا اجر من شريكه يجوز بلا خلاف فى ظاهر الرواية
امداد الاحکام (510/3)میں ہے:
سوال:۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ ہمارے یہاں کا دستور ہے کہ زمیندار یا کاشتکار اپنا کھیت کسی مہاجن کے یہاں رہن رکھ دیتا ہے، اور شرط یہ کرتا ہے کہ روپیہ کے عوض مہاجن کھیت جوتے ، بوئے اور کھیت مالگذاری دیا کرے، اور کھیت کا کل پیداوار مہاجن لیا کرے، اور زمیندار یا کاشتکار سوائے مال گذاری کے کچھ نہ پائے گا، اور نہ روپیہ کا سود مہاجن کو دینا ہوگا، آیا اس قسم کا لین دین شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ اس کو صاف صاف مع دلیل کے لکھ دیں۔
الجواب:قال فی الدر(۱): لا انتفاع به مطلقا…… إلا بإذن کل للآخر وقیل لا یحل للمرتهن لأنه ربا وقیل إن شرطه کان ربا وإلا لا۔ وفی الأشباه والجواهر : أباح الراهن للمرتهن أکل الثمار أو سکنی الدار أو لبن الشاة المرهونة فأكله لم یضمن وله منعه،قال العلامة الشامی: قال فی المنح : وعن عبد الله بن محمد بن أسلم السمرقندی وکان من کبار علماء سمرقند: اأنه لا یحل
له أن ینتفع بشیٔ منه بوجه من الوجوه وإن أذن له الراهن لانه أذن له فی الربا لانه یستوفی دينه
کاملا فتبقی له المنفعة فضلا فتکون ربا وهذا أمر عظیم۔قلت: وهذا مخالف لعامةالمعتبرات من أنه یحل بالاذن إلا أن یحمل علی الديانة وما فی المعتبرات علی الحکم۔ثم رأیت فی جواهر الفتاوی: إذا کان مشروطا صار قرضا فيه منفعةوهو ربا وإلا فلا بأس به ما فی المنح ملخصا، واقره ابنه الشیخ صالح، وتعقبنه الحموی بان ماکان ربا لايظهر فيه فرق بین الديانة والقضاء علی أنه لاحاجة الی التوفیق بعد أن الفتویٰ علی ماتقدم ، أی من أنه یباح۔ أقول: ما فی الجواهر یصلح للتوفیق وهووجيه وذکروا نظيره فیما لو أهدي المستقرض للمقرض: إن کانت بشرط كره وإلا فلا۔وما نقله الشارح عن الجوهر أیضا من قوله:’’ لا یضمن‘‘ یفید أنه لیس بربا۔
لان الربا مضمون فیحمل علی غیر المشروط وما فی الاشباه من الكرهة علی المشروط ویؤیدہ قول الشارح الآتی آخر الرهن: إن التعلیل بأنه ربا یفید أن الكراهة تحريمىة فتأمل۔وإذا کان مشروطا ضمن کما أفتی به فی الخيرية فیمن رهن شجر زیتون علی أن یأکل المرتهن ثمرته نظیر صبرہ بالدین۔قال ط: قلت: والغالب من أحوال الناس أنهم إنما یریدون عند الدفع الانتفاع،ولولاه لما أعطاه الدراهم وهذا بمنزلةالشرط لان المعروف کالمشروط وهو مما یعین المنع والله تعالی أعلم ۔
ان نصوص سے معلوم ہوا کہ رہن کی جو صورت سوال میں درج ہے یہ معاملہ ربوا میں داخل ہے۔ ولعن النبی صلی الله عليه وسلم اٰکل الربا وموكله۔پس اس صورت میں رہن رکھنا کسی مسلمان کو جائز نہیں ، البتہ اگر سخت مضطر ہو کہ اس کے بدون چارہ نہ ہو، اور اسراف وتنعم کے لئے رہن رکھ کر روپیہ نہ لیتا ہو، بلکہ ضرورت شرعیہ ومجبوری کی وجہ سے روپیہ قرض لینا چاہتا ہو تو شاید رہن رکھنے والا گناہ سے بچ جائے۔ باقی مرتہن کو رہن سے نفع حاصل کرنا یہ تو کسی حال میں درست نہیں۔ففی الاشباہ والنظائر۔ اخر القاعدۃ الخامسة من الفن الاول، ما نصه: وفی القنية والبغية، ، یجوز للمحتاج الاستقراض بالربح، وفی الحموی نحو ذلک۔ اور بہتر یہ ہے کہ ایسی صورت میں بیع بالوفا کا طریقہ اختیار کرلیا جائے، جس کے جواز پر متأخرین کا فتویٰ ہے۔ واللہ اعلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved