• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ماتھے پر محراب کی حقیقت

استفتاء

ماتھے پر جو کالے نشان پڑ جاتے ہیں جسے محراب  بھی کہا جاتا ہے اس کی کیا حقیقت ہے؟

وضاحت مطلوب ہے: آپ اس بارے میں کیا پوچھنا چاہتے ہیں؟

جواب وضاحت:

  • یہ کس وجہ سے بنتا ہے ؟
  • کیا قرآن و حدیث میں اسکی کچھ خاص فضیلت  بیان کی گئی ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1) ماتھے پر نشان  (محراب ) نماز کی حالت میں سجدہ  میں ماتھے کو زمین یا  کسی بھی سخت چیز پر ٹیکنے کی وجہ سے پڑ جاتا ہے لیکن خاص اس نشان کو بنانے کی نیت سے ماتھا ٹیکنا جائز نہیں البتہ خود بخودنشان بن جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔

2) قرآن و حدیث میں ماتھے پر  اس نشان (محراب) کے بارے میں کوئی فضیلت بیان نہیں ہوئی البتہ قرآن میں جو  "سِیْمَاهم فِیْ وُجُوههم مِنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ” (ان کی شناخت ان کے چہروں میں سجدہ کا نشان ہے)  آیا ہے اس  کی تفسیر میں مفسرین نے محراب کا نشان مراد نہ ہونے اور انوارات مراد ہونے  کی صراحت کی ہے:

السنن الکبری للبیھقی، کتاب الصلاۃ، باب سیماھم فی وجوھھم من أثر السجود،  رقم الحدیث 3652 ہے:

"عن منصور قال: قلت لمجاهد: "سِیْمَاهم فِیْ وُجُوههم مِنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ” أهو أثر السجود في وجه الإنسان؟ فقال: لا، إن أحده یکون بین عینيه مثل رکبة العنز، وهو کما شاء  الله یعني من الشر لکنه الخشوع”

المعجم الصغیر ،حرف العین، من اسمہ عبدللہ، رقم الحدیث 619 ہے:

"عن أبي بن کعب رضی الله عنه قال: قال رسول  الله ﷺ: سیماهم فی وجوههم من أثر السجود

قال: النور یوم القیامة ”

تفسیر روح المعانی(طبع: دار احياء التراث، بيروت) جلد نمبر 26 صفحہ نمبر  125 پر  اس آیت کی تفسیر میں ہے:

"عن مجاهد أنه قال : ليس له أثر في الوجه ولكنه الخشوع وفي رواية هي الخشوع والتواضع وقال منصور : سألت مجاهدا أهذه السيما هي الأثر يكون بين عيني الرجل قال : لا وقد يكون مثل ركبة البعير وهو أقسى قلبا من الحجارة وقيل : هي صفرة الوجه من سهر الليل وروي ذلك عن عكرمة والضحاك وروي السلمي عن عبد العزيز المكي ليس ذاك هو النحول والصفرة ولكنه يظهر على وجوه العابدين يبدو من باطنهم على ظاهرهم يتبين ذلك للمؤمنين ولو كان في زنجي أو حبشي”

معارف القرآن از مفتی شفیع صاحب ؒ (،طبع: مکتبہ معارف القرآن) جلد نمبر 8صفحہ نمبر 93پر  اس آیت کی تفسیر میں ہے:

"سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ، یعنی نماز ان کا ایسا وظیفہ زندگی بن گیا ہے کہ نماز اور سجدہ کے مخصوص آثار ان کے چہروں سے نمایاں ہوتے ہیں۔ مراد ان آثار سے وہ انوار ہیں جو عبدیت اور خشوع و خضوع سے ہر متقی عبادت گزار کے چہرہ پر مشاہدہ کئے جاتے ہیں، پیشانی میں جو نشان سجدہ کا پڑجاتا ہے وہ مراد نہیں۔ خصوصاً نماز تہجد کا یہ اثر بہت زیادہ واضح ہوتا ہے جیسا کہ ابن ماجہ میں بروایت جابر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے من کثر صلوٰة بالیل حسن وجھہ بالنھار یعنی جو شخص رات میں نماز کی کثرت کرتا ہے دن میں اس کا چہرہ حسین پر نور نظر آتا ہے اور حضرت حسن بصریؒ نے فرمایا کہ اس سے مراد نمازیوں کے چہروں کا وہ نور ہے جو قیامت میں نمایاں ہوگا”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved