- فتوی نمبر: 25-315
- تاریخ: 16 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > منتقل شدہ فی مالی معاملات
استفتاء
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں ہمارے علاقے میں یہ دستور ہے کہ جب کسی کا آپس میں جھگڑا ہوتا ہے تو ان کے درمیان صلح کرنے کےلیے ایک جرگہ قائم ہوتا ہے اور وہ ان کے درمیان فیصلہ کرتا ہے پہلے ان سے اختیار لیا جاتا ہے کہ ہم نے جو فیصلہ کرلیا دونوں کو منظور ہوگا اور ہمارے فیصلہ کرنے کے بعد کسی نے انکار کیا تو ان کومثلاً دس لاکھ روپے جرمانہ دینا ہوگا جوجرگے والے آپس میں تقسیم کریں گے۔سوال یہ ہے کہ اس قسم کا جرمانہ لےكر جرگے والوں كو اس كو خود استعمال كرنا جائز ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
ضرورت کے وقت مالی جرمانے کی صرف یہ صورت جائز ہے کہ اس شخص سے جو جرمانہ لیا جائے بعد میں اسے ہی کسی عنوان سے واپس کردیا جائے اور اگر اس کو واپس کرنے میں یہ خطرہ ہو کہ پھر لوگ جرگہ کے فیصلوں کا خیال نہیں کریں گے اور لوگوں کے حقوق ضائع ہو جائیں گے تو اس رقم کو کسی رفاہ عامہ کے کام میں خرچ کردیا جائے جرگہ والوں کا اسے خود استعمال کرنا بالکل جائز نہیں ۔
فتاوی شامی (98/6) میں ہے: قوله: ( لا بأخذ مال في المذهب):قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اهـ. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف قال في الشرنبلالية:ولا يفتى بهذالما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اهـ ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان قوله:( وفيه إلخ) أي في البحر، حيث قال: وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي وفى المجتبى لم يذكركيفيةالاخذ، وارى ان ياخذها فيمسكها فان أئيس من توبته يصرفها الى ما يرى وفى شرح الآثارالتعزيربالمال كان فى ابتداء الاسلام ثم نسخ .والحاصل: ان المذهب عدم التعزير باخذ المال .۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved