• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مدت پوری ہونے سے پہلے اجرت کا معاملہ ختم کرنا

استفتاء

فریق اول مالک مکان ***نے فریق ثانی مدرسہ رحمۃ للعالمین قائم کرنے کے لیے اپنا ملکیتی مکان ایک عشرہ سے زائد عرصہ سے کرایہ پر دے رکھا ہے۔2013؁ء کے وسط سے مالکۂ مکان نے مطالبہ کیا کہ مدرسہ کا کرایہ کم ہے، لہذا یا تو مدرسہ خالی کریں یا کرایہ مارکیٹ ریٹ کے مطابق ادا کریں، تو مدرسہ چلا سکتے ہیں لہذا باہمی رضا مندی سے کرایہ 15 ہزار روپے ماہانہ سے یکمشت 40 ہزار ماہانہ کر دیا گیا اور طے پایا کہ کرایہ ادا کرتے رہیں اور مدرسہ چلاتے رہیں اور ہماری طرف سے کسی قسم کی مداخلت نہیں کی جائے گی۔

30 جنوری 2014؁ کو فریقین میں تین سال کے لیے ایک معاہدہ ہو گیا جس کے تحت مالکۂ مکان نے کرایہ دار کو تین سال تک مدرسہ چلانے کی اجازت دے دی اور تحریر بھی لکھی گئی کہ

"میں (***، مالکۂ مکان) رو برو گواہان اقرار کرتی ہوں کہ ادارہ ۔۔۔ کو میں نے تین سال تک بطور کرایہ دار رہنے کی اجازت دی ہے اور اس میں کوئی مداخلت نہیں کروں گی، تین سال کے بعد چاہیں تو مکان خالی کر سکتا ہے۔”

معاہدہ کی کاپی یعنی اقرار نامہ کرایہ داری اس سوال کے ساتھ منسلک ہے۔

اس مدرسہ میں ملکان کی رضا مندی سے مصلیٰ قائم کیا گیا جہاں پانچ وقت اذان کے ساتھ نماز ادا کی جاتی ہے، اور مدرسہ کے اساتذہ، طلباء، آنے جانے والے مہمانوں کے علاوہ اہل محلہ بھی یہاں نماز ادا کرتے ہیں اور رمضان المبارک میں باقاعدہ تراویح کا بھی اہل محلہ کے لیے انتظام کیا جاتا ہے، اصلاحی اور ختم نبوت کے عنوان پر ماہانہ پروگرام ہوتا ہے اور مستقل بنیادوں پر دینی کام بھی ہوتا ہے۔

اس معاہدہ کو سامنے رکھتے ہوئے مدرسہ انتظامیہ نے شوال میں حفظ کے داخلے بھی کیے ہیں، گذشتہ چندہ ماہ سے مالکۂ مکان نے مطالبہ کیا ہے کہ اس نے یہ مکان اپنی زندگی میں ہی وارثان میں تقسیم کرنے کا ارادہ کر لیا ہے، لہذا مکان خالی کر دیں۔ مدرسہ کی انتظامیہ کا موقف ہے کہ معاہدہ کی رو سے تین سال تک یعنی 2017- 1- 29 تک ہم مدرسہ چلانے کا حق رکھتے ہیں۔

اس سلسلے میں شرعی طور پر ہماری رہنمائی کی جائے:

1۔ مدرسہ والوں کا مکان خالی نہ کرنے کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟

2۔ معاہدہ کی رو سے تین سال کی میعاد تک مکان خالی نہ کریں تو کوئی حرج یا گناہ تو نہیں؟

3۔ مالکۂ مکان کا معاہدہ کی خلاف ورزی کی کوشش کرنے کا شرعی حکم کیا ہے؟

4۔ مدرسہ والے اس معاہدہ پر عمل در آمد کے لیے اگر کوئی قانونی چارہ جوئی کریں تو شریعت میں اس کی اجازت ہے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

کرایہ داری کی مدت پوری ہونے سے پہلے کرایہ  داری کے معاملے کو ختم کرنا اگر کسی واضح اور ظاہر عذر کے بغیر ہو تو یہ فریقین کی رضا مندی یا عدالت کے فیصلے  پر موقوف ہوتا ہے۔

مالک مکان کا اپنے مکان کو اپنی زندگی ہی میں ورثاء کے درمیان تقسیم کرنا کوئی ایسا عذر نہیں کہ جس کی وجہ سے مالکِ مکان کرایہ دار کی رضا مندی کے بغیر کرایہ داری کے معاملے کو ختم کر سکے۔

البتہ اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کو وارثوں میں تقسیم کرنے کی حقیقت ہدیہ کرنا ہے اور ہدیہ میں قبضہ کرنا شرط نہیں، اس لیے کرایہ داری کو باقی رکھتے ہوئے مالکن جائیداد اپنے وارثوں میں تقسیم کر سکتی ہے اور جو کرایہ موصول ہو وہ وارثوں میں ان کے حصوں کی شرح کے مطابق تقسیم کر دیا جائے۔

1۔ و  إذا تحقق العذر و مست الحاجة إلی نقض هل يتفرد صاحب العذر بالنقض أو يحتاج إلی القضاء أو الرضا اختلفت الروايات فيه و الصحيح أن العذر إذا كان ظاهراً يتفرد و إن كان مشتبهاً لا يتفرد كذا في فتاوی قاضيخان. (هندية: 4/ 458)

  1. و من آجر عبده ثم باعه فليس بعذر في فسخ الإجارة لأنه لا ضرر عليه في إبقاء العقد إلا قدر ما التزمه عند العقد و هو الحجر علی نفسه من التصرف في المستأجر إلی انتهاء المدة كذا في النهاية. (4/ 460)

لہذا مذکورہ صورت میں معاہدہ میں مذکورہ کرایہ داری کی مدت تک:

1۔  مدرسے والے مکان خالی نہ کریں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

2۔ کوئی حرج اور گناہ نہیں۔

3۔ واضح عذر کے بغیر معاہدے کی خلاف ورزی درست نہیں۔

4۔ قانونی چارہ جوئی کر سکتے ہیں۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved