• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر

مختلف اوقات میں استعمال کیے گئے الفاظ کنایہ کا حکم

استفتاء

محترم مفتی صاحب!

چند روز پہلے ہمارے گھر والوں نے ٹی وی پر کسی مولوی صاحب کو طلاق کا مسئلہ بیان کرتے ہوئے سنا، جس میں انہوں نے بعض الفاظ کے بارے میں بتایا کہ ان سے طلاق واقع ہو جاتی ہے، گھر والوں نے جب مجھ سے اس بات کا ذکر کیا تو مجھے خیال آیا کہ اس قسم کے الفاظ تو میں بھی اپنی بیوی سے کہتا رہا ہوں۔ میں نے مختلف اوقات میں اپنی بیوی کو مندرجہ ذیل الفاظ کہے:

1۔ تم آزاد ہو۔

2۔ تم فارغ ہو۔

3۔ جاؤ میرے گھر سے نکل جاؤ، میں آپ کو نہیں رکھنا چاہتا۔

4۔ میرے گھر  سے اپنا سامان اٹھا کر جاؤ، اپنے باپ سے کہو تمہیں لے جائیں۔ ہمارا رشتہ یہیں تک تھا۔

5۔ اس رشتے کا یہی اینڈ ہونا تھا، آج بھی کل بھی۔

6۔ آپ میری زندگی سے دفعہ ہو جاؤ۔

7۔ اپنا سامان اٹھا کر لے جاؤ، ہمارا کوئی رشتہ نہیں ہے۔

یہ سب الفاظ غصے کی حالت میں کہے ہیں۔ البتہ ان سے طلاق کی نیت میری نہیں ہوتی تھی۔ اور ان میں سے نمبر 1، 2 اور 7 کی تفصیل تو مجھے یاد ہے، باقی الفاظ کی تفصیل یاد نہیں ہے۔ نمبر 1، 2  اور 7 کی تفصیل درج ذیل ہے:

نمبر:1،2: ہم دونوں میں کسی معمولی سی بات پر ناراضگی ہوئی تھی، جس پر میری بیوی نے گھر کا کام کرنا چھوڑ دیا تھا سوائے بچوں کے کاموں کے یعنی میرے لیے کھانا بنانا (چار سے پانچ دن ایسے معاملہ چلا، میں آفس سے آتا باہر سے کھانا کھا کر سو جاتا تھا)، ان دنوں میری بیوی مجھ سے طلاق کا مطالبہ کر رہی تھی، جب میں گھر جاتا مجھے کہتی ’’مجھے طلاق دو، مجھے فارغ کرو، میں نے نہیں رہنا آپ کے ساتھ‘‘، یہ سلسلہ چار سے پانچ دن چلا، ایک دن میں کچن میں کچھ بنا رہا تھا، تو مجھے بار بار یہی کہہ رہی تھی کہ مجھے فارغ کرو، جس پر میں نے کہا آپ فارغ ہی ہیں (لیکن اس میں میری نیت طلاق کی نہیں تھی) جیسے وہ کام نہیں کر رہی تھی تو میں نے کہا آپ فارغ ہیں پہلے سے، باقی اللہ بہتر جاننے والا ہے۔ جبکہ میری بیوی کا کہنا ہے کہ میرے الفاظ یہ تھے ’’آپ پہلے ہی فارغ ہیں کونسا کام کر رہی ہیں‘‘ لیکن مجھے لگتا ہے کہ میرے الفاظ ’’تم آزاد ہو، تم فارغ ہی ہو‘‘ تھے۔

نمبر 7: میں نے اپنی بیوی کو کہا کہ مجھے شلوار میں نالا ڈال دو، میری بیوی نے انکار کر دیا اور کہا  کہ اپنا کام خود کیا کریں۔ یاد رہے کہ بیوی مجھ سے اس وجہ سے ناراض تھی کہ میں دبئی سے پاکستان آیا تھا اور میری بیوی بیگ اوپن کرنا چاہتی تھی، جبکہ میری بہنوں اور امی نے بیک اوپن کیا، اس بات سے بات بڑھی اور میں نے غصے میں کہا کہ ’’جاؤ میرے گھر سے نکل جاؤ، میں آپ کو رکھنا نہیں چاہتا‘‘ جس پر میری بیوی گھر سے باہر چلی گئی، پھر بڑوں کے کہنے پر گھر واپس آ گئی، میں نے جب یہ الفاظ کہے تو اس وقت میری نیت طلاق کی نہیں تھی، بس بیوی کے انکار پر غصہ آنے کی وجہ سے کہا۔

کیا اس صورت میں میری بیوی کو طلاق واقع ہو گئی ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں عورت کے حق میں ایک طلاق بائن واقع ہو چکی ہے جس کی وجہ سے نکاح ختم ہو چکا ہے۔ میاں بیوی چاہیں تو نئے مہر کے ساتھ دو گواہوں کی موجودگی میں  نیا نکاح کر کے اکٹھے رہ سکتے ہیں۔آئندہ شوہر کو صرف دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا۔

توجیہ: سوال نامے کے مطابق شوہر نے مختلف مواقع پر بیوی کو جو الفاظ کہے ہیں، وہ درج ذیل ہیں:

1۔ جاؤ میرے گھر سے نکل جاؤ۔

2۔ تم آزاد ہو۔

3۔ تم فارغ ہو۔

4۔  میں آپ کو نہیں رکھنا چاہتا۔

5۔ میرے گھر  سے اپنا سامان اٹھا کر جاؤ،

6۔ اپنے باپ سے کہو تمہیں لے جائیں۔

7۔ ہمارا رشتہ یہیں تک تھا۔

8۔ اس رشتے کا یہی اینڈ ہونا تھا، آج بھی کل بھی۔

9۔ آپ میری زندگی سے دفعہ ہو جاؤ۔

10۔ اپنا سامان اٹھا کر لے جاؤ۔

11۔  ہمارا کوئی رشتہ نہیں ہے۔

ان  الفاظ میں سے پہلا لفظ کنایہ کی پہلی قسم میں سے ہے۔ اس لفظ سے شوہر کی نیت طلاق دینے کی نہیں تھی، شوہر طلاق کی  نیت نہ ہونے پر بیوی کے سامنے قسم دیدے تو اس لفظ سے طلاق نہ ہو گی ورنہ عورت کے حق میں اس لفظ سے ایک طلاق بائنہ واقع ہو جائے گی۔ بعد والے دو لفظ ’’تم آزاد ہو۔ تم فارغ ہو‘‘  کنایہ کی تیسری قسم میں سے ہیں، اور عورت کے مسلسل مطالبۂ طلاق پر بولے گئے ہیں۔ تیسری قسم کے الفاظ اگر غصہ کی حالت میں کہے گئے ہوں یا مذاکرۂ طلاق کی حالت میں کہے گئے ہوں تو ان سے نیت کے بغیر بھی بیوی کے حق میں ایک طلاق بائنہ واقع ہو جاتی ہے۔ ان کے علاوہ باقی کچھ الفاظ تو ایسے ہیں جو طلاق کے لیے نہ صریح ہیں اور نہ کنایہ ہیں، اور کچھ الفاظ دوسری قسم میں سے ہیں کہ طلاق دینے کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں اور عورت کو محض برا بھلا کہنے کے لیے بھی ۔ دوسری قسم کے الفاظ اگر غصہ کی حالت میں کہے گئے ہوں تو ان کا حکم وہی ہے جو قسم اول کا ہے، اور اگر مذاکرہ طلاق کی حالت میں کہے گئے ہوں تو پھر ان کا حکم قسم سوم  والا ہے۔

غرض مذکورہ صورت میں چونکہ تینوں قسم کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور غصے کی حالت بھی ہے اور بعض میں مذاکرہ طلاق بھی ہے، لہذا عورت کے حق میں ایک بائنہ طلاق واقع ہونے میں کچھ تردد نہیں۔ نیز چونکہ کنائی الفاظ سے بائنہ طلاق واقع ہوتی ہے، اور فقہی ضابطہ ہے کہ ’’البائن لا یلحق البائن إذا أمكن جعله إخباراً عن الأول‘‘ اس لیے صرف ایک بائنہ طلاق ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved