- فتوی نمبر: 9-144
- تاریخ: 14 اکتوبر 2015
- عنوانات: عقائد و نظریات > منتقل شدہ فی عقائد و نظریات
استفتاء
مندرجہ ذیل کے بارے میں سنت اور افضل کیا ہے؟ براہ کرم دوٹوک انداز میں واضح حکم فرما دیں۔
1۔ حدیث و تفسیر اور سیرت کی امہات الکتب میں جہاں نبی پاک ﷺ کا نام آیا ہے وہاں چھوٹا درود شریف ’’صلی اللہ علیہ و سلم‘‘ لکھا ہوا موجود ہے۔ ایک حدیث پاک میں خود رسول پاک ﷺ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے نام کے ساتھ یہی مختصر درود ’’صلی اللہ علیہ و سلم‘‘ استعمال فرمایا ہے۔ یہ حدیث ’’فضائل اعمال‘‘ از شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمۃ اللہ علیہ میں بھی درج ہے۔
لیکن ہمارے ایک رفیق کار پروفیسر دوست نے اسلامیات کی کتاب شائع کی ہے جو ایف اے کے نصاب میں داخل ہے، ان صاحب نے ہر جگہ جہاں نبی پاک کا نام آیا ہے ’’صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم‘‘ (و آلہ کا اضافہ) لکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’و آلہ و سلم‘‘ لکھنا زیادہ اجر کا موجب ہے بلکہ ان کے کہنے کے مطابق نجدی فرقے کے لوگ اکثر گستاخ رسول ہوتے ہیں لہذا ہمیں یہی ’’و آلہ و سلم‘‘ لکھنا بولنا چاہیے۔ محترم دوست کا تعلق بریلوی اہل سنت فرقہ سے ہے۔
لیکن یہ انہی کا امتیاز نہیں، خود بڑے بڑے دیوبندی خطیب حضرات کو ہم نے تقریر کے دوران بہ تاکید ’’و آلہ و سلم‘‘ کا لاحقہ بولتے سنا ہے۔ اب تحریری طور پر بھی وہ کہتے ہیں حب رسول کا تقاضا ہے کہ ہم ’’و آلہ ‘‘ کا اضافہ تحریر و تقریر میں کیا کریں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسمیں حرج ہی کیا ہے۔ اب ایک بڑے اسلامی دینی مرکز جامعہ خیر المدارس کے ماہانہ جریدہ 34/ 6، ص: 43، برائے ماہ اپریل 2016 پر امیر اتحاد اہل سنت و الجماعت مولانا محمد الیاس گھمن کا ایک مقالہ چھپا ہے، صفحہ مذکورہ 43 پر سنن ترمذی ج: 2، ص: 494 کے حوالہ سے ایک مضمون چھپا ہے۔ حدیث رسول کی عبارت کی کتابت یوں ہے:
قال رسول الله صلى اله عليه و آله و سلم إنما أخاف على أمتي أئمة مضلين قال و قال رسول الله صلى الله عليه و آله و سلم لا تزال طائفة من أمتي على الحق ظاهرين و لا يضرهم من خذلهم حتى يأتي أمر الله. (السنن الترمذي: 2/ 494)
اسی طرح مثلاً صحاح ستہ کی دوسری کتب اور تاریخ و سیرت کی دیگر کتب میں جہاں پہلے ’’صلی اللہ علیہ و سلم‘‘ (بغیر آلہ کے) لکھا ہوا ہے تمام جگہ یہ درستی کر لی جائے تو کیا حرج ہے؟ جبکہ ایک آدمی اس کے خلاف ہے اور کہتا ہے کہ یہ سنت سلف (اور سنت رسول بحوالہ حدیث مذکور بالا) ہی کے خلاف ہے بلکہ قواعد عربی کی رو سے بھی درست نہیں کہ ’’علیہ‘‘ میں ضمیر مجرور ہے اور اس مجرور ضمیر پر اگر کسی دوسری ضمیر کا عطف کیا جائے تو درمیان میں حرف جر مثلاً ’’علیٰ‘‘ کا اضافہ کرنا ضروری ہے، یوں بولا اور لکھا جائے گا ’’صلیٰ اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سلم‘‘، اس حرف جر کے اضافہ سے جملہ درود پاک قواعد کی رو سے درست قرار پائے گا۔
براہ کرم ہماری رہنمائی فرمائیں کہ سنت کے قریب تر کیا ہے؟ اور آیا الخیر میں محولہ بالا اضافہ مستحسن ہے؟ اور صحیحین کی کسی حدیث میں تحریراً ایسا کرنا مستحب ہے؟
توجہ: ماہنامہ ’’نقیب ختم نبوت‘‘ ملتان 22/4 اپریل 2011ء میرے سامنے ہے، ڈاکٹر ہمایوں عباس کا مضمون ’’القاب صحابہ‘‘ صفحہ 16 تا 32 احادیث کے متن عربی میں آٹھ دفعہ ’’و آلہ و سلم‘‘ کا اضافہ کیا گیا ہے اور اردو ترجمہ وغیرہ میں 54 بار کل 62 دفعہ ’’صلیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم‘‘لکھا گیا ہے۔ کیا اب متن و ترجمہ میں یہ جائز ہے؟
2۔ کیا کسی صحیح حدیث میں آیا ہے کہ بنی ثقیف میں ایک سفاک اور ایک مبیر ہو گا اور وہ دونوں مختار ثقفی اور حجاج بن یوسف تھے۔ اس حدیث کی سند کیسی ہے؟ ایک متبحر عالم نے کہا کہ حجاج بن یوسف حدیث رسول کا بڑا عالم تھا (وہ تو ظالم مشہور ہے) شرعاً وہ کیا تھا؟
3۔ نواسی رسول سیدہ زینب بنت علی و فاطمہ کی بیٹی حجاج مذکور کے نکاح میں تھی جس سے ایک لڑکی بھی ہوئی۔ کیا یہ روایت درست ہے؟ ایک دوست نے کہا کہ اتنے مقدس نبوی خاندان کی بیٹی اتنے بڑے سفاک کے نکاح میں کیسے دی جا سکتی ہے؟ یہ روایت نا درست ہو گی؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
’’و آلہ‘‘ کا لفظ لگانا بھی جائز ہے اور نہ لگانا بھی جائز ہے۔ فریقین میں سے کوئی بھی مستحق ملامت نہیں۔ بات صرف اتنی ہے لیکن آپ نے اس مسئلہ کو عجیب رنگ دیا ہے:
1۔ بحث میں آپ نے دیوبندی، بریلوی اور نجدی فرقہ کا ذکر کیا ہے۔ اس تفریق و تقسیم کی ضرورت نہ تھی۔
2۔ ’’و آلہ‘‘ کا اضافہ کرنے میں کیا حرج ہے؟ اس جملہ کا استعمال آپ نے کئی دفعہ کیا ہے۔ حرج یہ بنتا ہے۔
i۔ جو حدیث آپ نے نقل کی ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حق میں ’’صلیٰ اللہ علیہ و سلم‘‘ کے الفاظ ’’و آلہ‘‘ کے بغیر کہے۔ کیا آپ ﷺ کے کہے ہوئے الفاظ میں اپنی طرف سے اضافہ کرنے کو اور اس کو ترجیح دینے کو بھی یہ کہیں گے کہ اس میں کیا حرج ہے۔
ii۔ حدیث و سیرت کی کتابوں میں صدیوں سے رسول اللہ کے لیے صلیٰ اللہ علیہ و سلم کو ’’و آلہ‘‘ کے بغیر لکھا گیا ہے اور پڑھا گیا ہے۔ اب ہم ’’و آلہ‘‘ کا اضافہ کر کے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم لوگ اپنے اسلاف و اکابر سے درود شریف کے پڑھنے میں زیادہ حساس ہیں۔
iii۔ حدیث میں تابعی نے صحابی کے واسطے سے حدیث کو نقل کیا تو ’’و آلہ‘‘ کے بغیر نقل کیا لیکن ہم نے منقول میں اپنی طرف سے اضافہ کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
نوٹ: باقی دو سوالوں کا تعلق دوسرے شعبے سے ہے اس لیے ان دونوں سوالوں کا جواب مطلوب ہو تو ان کو علیحدہ سے لکھ کر بھیجئے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved