• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر

مناسخہ

استفتاء

*** کا انتقال 1991ء میں ہوا، *** کی بیوی قبل ازیں 1989ء میں فوت ہو چکی تھیں، *** کے ورثاء میں دو بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں، *** کی وراثت اس کے ورثاء میں تقسیم ہو گئی، *** کا ایک بیٹا *** شادی شدہ لیکن لا ولد تھا اور ایک بیٹی غیر شادی شدہ تھی، *** کی وراثت ان کے ورثاء میں تقسیم ہو گئی، *** اور غیر شادی شدہ بہن اکٹھے رہتے تھے، اور *** کی وراثت میں سے ملنے والا حصہ بھی اکٹھا تھا، غیر شادی شدہ بہن 2004ء میں انتقال کر گئیں، لیکن ان کی وراثت تا حال تقسیم نہ ہوئی اور ان کو ترکہ میں ملنے والی رقم *** کے پاس ہی رہی اور 2015ء میں *** کا انتقال ہو گیا، ان کے ورثاء درج ذیل ہیں: بیوی، ایک بھائی، دو بہنیں۔

کیا فرماتے ہیں علمائے دین بیچ اس مسئلہ کے کہ  *** اور ان کی غیر شادی شدہ بہن*** کی وراثت کیسے تقسیم ہو گی؟ 2004 میں جب غیر شادی شدہ بہن زہرہ بانو کا انتقال ہوا تو ان کے ورثاء درج ذیل تھے: دو بھائی، دو بہنیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں پہلے غیر شادی شدہ بہن کے ترکے کو 6 حصوں میں تقسیم کر کے 2-2 حصے ہر بھائی کو اور ایک ایک حصہ ہر بہن کو دیا جائے گا۔ پھر مرحوم بھائی کے ترکے کو 16 حصوں میں تقسیم کر کے 4 حصے بیوہ کو اور 6 حصے بھائی کو اور 3-3 حصے ہر بہن کو دیے جائیں گے۔

نوٹ: مرحوم بھائی کے ترکے کی تقسیم میں ان کا وہ حصہ بھی شامل کیا جائے گا جو ان کو مرحوم بہن کے ترکے سے ملا۔ فقط و اللہ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved