- فتوی نمبر: 29-306
- تاریخ: 20 اگست 2023
- عنوانات: مالی معاملات > منتقل شدہ فی مالی معاملات
استفتاء
محترم مفتی صاحبان اس بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ ایک شخص ایک کمپنی بناتا ہے جس میں TCS کے ذریعے حرام مال یعنی شراب اور خنزیر کی سپلائی بھی ہوتی ہےایسی کمپنی کو چلانا شرعا کیسا ہے ؟ از راہ کرم جواب دے کر عند اللہ ماجور ہوں۔
تنقیح: یہ کمپنی جرمنی میں ہے اور مسلمان و کافر دونوں ہی مختلف چیزیں بھیجیں گےجس میں حلال و حرام دونوں چیزیں ہو سکتی ہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
حرام مال بھیجنے والا اور منگوانے والا اگر دونوں غیر مسلم ہوں تو ایک قول کے مطابق حرام مال کی سپلائی کی گنجائش ہے، لیکن اگر بھیجنے والا یا منگوانے والا مسلمان ہو تو حرام مال کی سپلائی جائز نہیں ۔ لہذا کمپنی اس شرط کے ساتھ کہ وہ "مسلمانوں کا حرام مال سپلائی نہیں کرے گی ” کام کرسکتی ہے لیکن اگر کمپنی اس شرط کا لحاظ نہیں کرتی تو ایسی کمپنی چلانا جائز نہیں ۔
توجیہ :ایک قول کے مطابق کفار مخاطب بالفروع نہیں ، لہذا اس قول کے مطابق شراب پینا یا خنزیر کھانا ان کے حق میں گناہ متصور نہ ہو گا اور اعانت علی المعصیت یعنی گناہ پر تعاون والی خرابی لازم نہ آئے گی جبکہ مسلمانوں کے لیے شراب یا خنزیر کا استعمال گناہ ہے لہذا ان چیزوں کی سپلائی سے اعانت علی المعصیۃ کا گناہ ہو گا جو کہ جائز نہیں ۔
محیط البرہانی( 16/65) میں ہے :
وإذا استأجر مسلماً ليحمل له خمراً ولم يقل ليشرب، أو قال ليشرب جازت الإجارة في قول أبي حنيفة خلافاً لهما، وكذلك إذا استأجر الذمي بيتاً من مسلم ليبيع فيه الخمر، جازت الإجارة في قول أبي حنيفة خلافاً لهما. والوجه لأبي حنيفة فيما إذا نص على الشرب، إن هذه إجارة وقعت لأمر مباح؛ لأنها وقعت على حمل الخمر ليشربها الذمي، أو وقعت على الدار ليبيع الذميّ وشرب الخمر مباح؛ لأن خطاب التحريم كان غير نازل في حقه۔
ہدایہ ( 1/212) میں ہے:
وإذا تزوج الكافر بغير شهود أو في عدة كافر وذلك في دينهم جائز ثم أسلما أقرا عليه "وهذا عند أبي حنيفة وقال زفر رحمه الله النكاح فاسد في الوجهين إلا أنه لا يتعرض لهم قبل الإسلام والمرافعة إلى الحكام وقال أبو يوسف ومحمد رحمهما الله في الوجه الأول كما قال أبو حنيفة رحمه الله وفي الوجه الثاني كما قال زفر رحمه الله له أن الخطابات عامة على ما مر من قبل فتلزمهم وإنما لا يتعرض لهم لذمتهم إعراضا لا تقريرا فإذا ترافعوا أو أسلموا والحرمة قائمة وجب التفريق ولهما أن حرمة نكاح المعتدة مجمع عليها فكانوا ملتزمين لها وحرمة النكاح بغير شهود مختلف فيها ولم يلتزموا أحكامنا بجميع الاختلافات ولأبي حنيفة رحمه الله أن الحرمة لا يمكن إثباتها حقا للشرع لأنهم لا يخاطبون بحقوقه۔
بدائع الصنائع (7/ 147) میں ہے:
وأما الكلام في المسألة من حيث المعنى فبعض مشايخنا قالوا الخمر مباح في حق أهل الذمة وكذا الخنزير فالخمر في حقهم كالخل في حقنا والخنزير في حقهم كالشاة في حقنا في حق الإباحة شرعا فكان كل واحد منهما مالا متقوما في حقهم ودليل الإباحة في حقهم أن كل واحد منهم منتفع به حقيقة لأنه صالح لإقامة مصلحة البقاء والأصل في أسباب البقاء هو الإطلاق إلا أن الحرمة في حق المسلم تثبت نصا غير معقول المعنى أو معقول المعنى لمعنى لا يوجد ههنا أو يوجد لكنه يقتضي الحل لا الحرمة وهو قوله تعالى { إنما يريد الشيطان أن يوقع بينكم العداوة والبغضاء في الخمر والميسر ويصدكم عن ذكر الله وعن الصلاة فهل أنتم منتهون } لأن الصد لا يوجد في الكفرة والعداوة فيما بينهم واجب الوقوع ولأنها سبب المنازعة والمنازعة سبب الهلاك
امداد الاحکام (4/386) میں ہے:
عبارت مذکورہ سے امورِ ذیل مستفاد ہوئے
۱…امام زفرؒ کے نزدیک تمام خطابات عامّہ واردہ فی الشرع دربارۂ معاملات کفار کو بھی شامل ہیں خواہ وہ حربی ہوں یا ذمی اور عموم خطاب کی وجہ سے حکم بھی عموماً ثابت ہوگا ، لہٰذا جو معاملات کفّار اہلِ حرب واہل ذمہ خلاف شرع کریں گے۔ ان پر حکم فساد لگایا جائے گا۔ گو اہل حرب سے بوجہ عدم ولایت واہل ذمہ سے بوجہ معاہدہ کے تعرض نہ کیا جائے گا۔
۲…صاحبین کے نزدیک اہل حرب کے معاملات خلاف شرع ہیں ، ہر ایک پر حکم فساد نہ لگایا جائے گا کیونکہ انہوں نے احکام اسلام کاالتزام نہیں کیا گویا ثبوتِ حکم کے لئے ان کے نزدیک عموم خطاب کافی نہیں بلکہ التزام بھی شرط ہے۔ اور وہ اہلِ حرب میں مفقود ہے لیکن اہل ذمہ کے جو معاملات اسلام کے مسائل متفق علیہا کے خلاف ہوں گے ان پر حکم فساد لگایا جائے گا کیونکہ وہ معاملات میں احکام اسلام کا التزام کرچکے ہیں۔
۳… امام اعظم ؒ کے نزدیک اہل ذمہ کے بھی معاملات خلافِ شرع پر حکم فساد نہ لگایا جائے گا بشرطیکہ وہ معاملات خود ان کے دین کے موافق ہوں کیونکہ اہل ذمہ نے معاملات میں احکام اسلام کا التزام اپنے معتقدات کے خلاف میں نہیں کیا۔ ہاں اگر کسی معاملہ کی بابت معاہدہ ہی میں ان سے شرط کرلی جائے اس کا التزام ان کی طرف سے ہوگا۔ باقی معاملات شرعیہ جو ان کے معتقدات کے موافق نہیں اور نہ ان سے ان کے بارے میں کوئی شرط کی گئی ہے۔ ان میں اہل ذمہ کی طرف سے التزام نہیں پایا گیا، لہٰذا ایسے معاملات جب وہ اپنے مذہب کے موافق کریں گے تو ان کو صحیح مانا جائے گا اور حکم فساد نہ دیا جائے گا۔ اس تفصیل سے شبہات مذکورہ سوال کا جواب ظاہر ہوگیا۔ اشکال کا منشا یہ تھا کہ جب کفار مخاطب بالعقوبات ومعاملات ہیں تو اگر وہ کوئی معاملہ خلاف شرع کرکے روپیہ حاصل کریں اس کو حلال نہ کہنا چاہئے بلکہ حرام کہنا چاہئے۔ جواب کا حاصل یہ ہے کہ کفّار مخاطب بالفروع فی للعقوبات والمعاملات اگرچہ ہیں لیکن حکم بالحرمۃ والفساد کے لئے خطاب عام کافی نہیں بلکہ التزام بھی شرط ہے۔ اہل حرب نے تو احکامِ اسلام کا التزام بالکل نہیں کیا۔ نہ اپنے معتقد کے موافق میں اور نہ مخالف میں ، لہٰذا وہ تو جس طرح بھی روپیہ کمائیں خواہ رباء سے خواہ غصب سے خواہ بیوع باطلہ وفاسدہ سے خواہ اپنے مذہب کے موافق خواہ مخالف طریق سے بہرصورت وہ روپیہ وغیرہ ان کی ملک میں داخل ہوجائے گا اور مسلمان کو تنخواہ میں لینا اس کا جائز ہے اور اہل ذمہ نے احکام اسلام کا التزام اپنے معتقدات کے موافقات میں کیا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved