• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مشترکہ کھاتے میں انفرادی کمائی کاحکم اورتقسیم میراث

استفتاء

زید عمر اور بکر تین بھائی مشترکہ آمد وخرچ کرتے ہیں جن میں زید اور عمر صاحب اولاد ہیں اور بکر شادی شدہ ہے زید کے بیٹے خالد نے مشترکہ اخراجات میں سے اپنی تعلیم مکمل کرکے سرکاری ملازمت ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر سرکاری ملازمت نہ ملی ۔ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے گھر سے علیحدگی اختیار کرلی اور کسی دوسرے شہر چلاگیا ۔دریں اثنا خالد کے حالات بڑے تنگ رہے گھر والوں سے اخراجات کا کوئی مطالبہ نہیں کیا اور نہ ہی گھر والوں نے تکمیل تعلیم کے بعد کوئی خاص خرچہ دیا ۔اور نہ ہی کاروبار کے لیے کوئی تعاون کیا ۔خالد اپنے طور پر دوست احباب سے قرض لے کر مزدوری کرکے وقت گزار تا رہا اورساتھ ساتھ ملازمت کی تلاش جاری رکھی ۔اللہ رب العزت نے مدد فرمائی ۔ایک فیکٹری میں ملازمت مل گئی اللہ کے فضل وکرم اور اپنی محنت ودیانت کی وجہ سے تنخواہ میں اضافہ ہوتا چلاگیا۔اب خالد کے حالات درست ہیں ۔تینوں بھائی اشتراک ختم کرکے علیحدہ ہوناچاہتے ہیں عمرکا مطالبہ ہے کہ بھتیجے خالد کی اس آمدنی سے جو اس نے ملازمت کر کے وصول کی ہے مجھے بھی حصہ دیا جائے ۔شرع شریف کی روشنی میں خالد کی مالیت میں اس کے چچے حق دار ہیں یا نہیں ؟

وضاحت مطلوب ہے :

خالد نے جب ملازمت کی تو وہ پھر اپنے والدین اور چچا کے ساتھ ہی رہتا رہا یا الگ رہتا رہا؟

جواب وضاحت:

خالد لاہور میں رہتا تھا اور اسکے بچے کبھی مشترکہ گھر میں رہتے تھے اور کبھی اسکے ساتھ لاہور چلے جاتے تھے ہاں خالد کے والدین اور بھائی بہن مشترکہ رہتے تھے اسکے والدین کی آمدنی بھی مشترکہ رہی اور اسکا بھائی بھی مشترکہ میں کام کرتا رہا نہ ہی اشتراک کی وضاحت تھی اور نہ ہی عدم اشتراک کی۔

وضاحت مطلوب ہے:

خالد کی ملکیت میں کیا کیا چیزیں ہیں ؟

جواب وضاحت:

جب خالد گھر سے گیا تھا اس کی ملکیت میں کچھ بھی نہیں تھا لاہور میں اس نے ملازمت کی اور چیزیں بنائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ہمارے عرف اور معاشرے میں جب چند بھائی اکٹھے رہ رہے ہوں اور ان کا خرچہ بھی مشترک ہو پھرچاہے  ان کی اولاد جوان ہوکر وہ بھی  کمانے لگ جائے تو یہ سب مال کمانے والوں کا مشترک سمجھا جاتا ہے چاہے کسی نے کچھ زیادہ کمایا ہو یا کم کمایا ہو۔ مذکورہ صورت بھی اسی قسم کی ہے ،چنانچہ خالد اگرچہ لاہور میں کما رہا تھا اور  وہیں رہ رہا تھا لیکن اس نے علیحدہ ہونے کی باقاعدہ صراحت بھی نہیں کی اور اس کے بیوی بچے بھی اکثر وبیشتر مشترکہ گھر میں ہی رہتے تھے اور ان کا خرچہ بھی مشترکہ کمائی میں سے  ہوتا تھا جس میں خالد بھی حصہ لیتا تھا ،لہذا مذکورہ صورت میں خالد کے چچا کا یہ مطالبہ کے خالد کا مال بھی مشترک کھاتے میں شمار ہو کر تقسیم کیا جائے عرف کے مطابق ہے اور جائز ہے۔

حاشیة ابن عابدین(325/4)

مطلب اجتمعا فی دار واحدۃ واکتسبا ولا یعلم التفاوت فهو بینهما بالسویة 
تنبیه: یؤخذ من هذا ما أفتی به فی الخیریة فی زوج امرأۃ وابنها اجتمعا فی دار واحدۃ وأخذ کل منهما یکتسب علی حدۃ ویجمعان کسبهما ولا یعلم التفاوت ولا التساوی ولاالتمییز فأجاب بأنه بینهما سویة وکذا لو اجتمع إخوۃ یعملون فی ترکة أبیهم ونما المال فهو بینهم سویة ولو اختلفوا فی العمل والرأی ا ہ

امداد الفتاوی(515/3) میں ہے:

سوال:         ایک استفتاء آیا ہے جس کا جواب یہ سمجھ میں آتا ہے لیکن دو متضاد روایت قیل قیل کرکے لکھا ہے کس کو ترجیح دی جائے۔شامی فاروقی(349)فصل فی الشرکۃ الفاسدۃ:

تنبیه: یؤخذ من هذا ما أفتی به فی الخیریة فی زوج امرأۃ وابنها اجتمعا فی دار واحدۃ وأخذ کل منهما یکتسب علی حدۃ ویجمعان کسبهما ولا یعلم التفاوت ولا التساوی ولاالتمییز فأجاب بأنه بینهما سویة الخ

چند سطروں کے بعد لکھا ہے:

فقیل هی للزوج وتکون المرأة معینة له الااذا کان لها کسبا علی حدة فهو لها وقیل بینهما نصفان۔(والسلام)

الجواب:       میرے نزدیک ان دونوں روایتوں میں تضاد نہیں۔ وجہ جمع یہ ہے کہ حالات مختلف ہوتے ہیں جن کی تعیین کبھی تصریح سے کبھی قرائن سے ہوتی ہے یعنی کبھی تو مراد اصل کا سب ہوتا ہے اور عورت کے متعلق عرفا  کسب  ہوتا ہی نہیں۔وہاں تو اس کو معین سمجھا جائے گا اور کہیں گھر کے سب آدمی اپنے اپنے لیے کسب کرتے ہیں جیسا کہ اکثر بڑے شہروں میں مثل دہلی وغیرہ کے دیکھا جاتا ہے وہاں دونوں کو کاسب قرار دے کر عدم امتیاز مقدار کے وقت علی السویہ نصف نصف کا مالک سمجھا جائے گا۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved