• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

نمازوں کی فدیہ میں کل مال کی وصیت کرنا

  • فتوی نمبر: 10-242
  • تاریخ: 02 نومبر 2017
  • عنوانات:

استفتاء

ایک شرعی مسئلہ پوچھنا ہے۔ کہ میرے بڑے بھائی ہیں غیر شادی شدہ ہیں، والدین فوت ہو چکے ہیں، ان کے چار بھائی اور دو بہنیں ہیں، ایک بہن فوت ہو چکی ہیں، اس وقت چار بھائی اور ایک بہن حیات ہیں۔  بڑے بھائی زندہ ہیں اور ایک وصیت کرنا چاہتے ہیں کہ میرے پاس جتنا سرمایہ ہے کل سرمایہ کو مندرجہ ذیل مد میں وصیت کر سکتا ہوں:

1۔ والدہ مرحومہ کی نمازوں کا فدیہ۔

2۔ بڑے بھائی اپنی نمازوں کا فدیہ۔

کل سرمایہ کی وصیت کر سکتے ہیں یا نہیں؟

بھائی صحت مند ہیں اپنی نمازیں ادا کر سکتے ہیں۔ والدہ مرحومہ کی نمازوں کا فدیہ بھائی اپنی  زندگی میں ادا کریں یا وصیت کر جائیں اس میں کیا طریقہ بہتر ہے؟

وضاحت مطلوب ہے:

کل سرمایہ کی وصیت کس کے لیے کرنا چاہتے ہیں؟

جواب وضاحت:

کل سرمایہ کی وصیت کچھ والدہ کی نمازوں کے فدیہ میں اور کچھ اپنی نمازوں کے فدیہ میں کرنا چاہتے ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ والدہ کی نمازوں کا فدیہ اپنی زندگی میں بھی ادا کر سکتے ہیں اور یہ بہتر ہے تاکہ تلافی جلدی ہو جائے۔ اور وصیت بھی کر سکتے ہیں۔

2۔ چونکہ آپ کے بڑے بھائی خود صحت مند ہیں تو انہیں چاہیے کہ اپنی نمازوں کی قضاء اپنی زندگی ہی میں پوری کرنے کی کوشش کریں، اس کی ترتیب یوں بنا لیں کہ کل قضاء نمازوں کا حساب لگا کر روزانہ کی بنیاد پر قضاء شروع کر دیں اور وہ حساب لکھ بھی  لیں یا کسی کو بتا دیں اور پھر یوں وصیت کر دیں کہ اگر میری نمازوں کی قضاء پوری ہونے سے پہلے میری موت آجائے تو باقی نمازوں کا فدیہ ادا کر دیا جائے۔

نوٹ: والدہ یا اپنی نمازوں کے فدیے کی وصیت کو ایک تہائی سرمایہ میں سے پورا کرنا ورثاء پر لازم ہو گا اور ایک تہائی سے زائد سرمایہ سے وصیت کو پورا کرنا ورثاء کی رضا مندی پر موقوف ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved