• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

نشے کی حالت میں عدم وقوع طلاق کے قول کو لینا

استفتاء

کل شام ہم میاں بیوی میں جھگڑا شروع ہو گیا، جھگڑا تو اکثر ہی رہتا ہے، اور جھگڑے کی وجہ سے میرے میاں کی شراب کی عادت ہے جو کہ ہم سب گھر والوں کے لیے بہت پریشانی کا باعث ہے، کل تو حد ختم ہو گئی تھی، کیونکہ اب میں ان سے کہتی ہوں کہ اگر اب بھی شراب پینی نہ چھوڑی تو مجھے چھوڑ دینا، لیکن وہ باز ہی نہیں آتے، میری تین بیٹیاں ہیں، میں تو ان کو یہ الفاظ صرف ڈرانے کے لیے کہتی تھی کہ شاید میری اس بات سے ہی یہ باز آ جائیں، اور شراب پینا چھوڑ دیں۔ کل بچے گھر نہیں تھے،  بچوں کو لینے نانی کے گھر جانا تھا انہیں میں نے کتنی دفعہ کہا کہ بچوں کو لینے چلتے ہیں، لیکن یہ میری بات ہی نہیں سن رہے تھے، الٹا آگے سے مجھے گندی گندی گالیاں نکالنا شروع کر دیں، جب میں بھی تھوڑی غصے میں آئی، تو انہوں نے آگے سے مجھے تین دفعہ "طلاق، طلاق، طلاق” کہہ دی، اس وقت یہ مکمل شراب کے نشے میں تھے۔ اس حالت میں انہیں بالکل ہوش نہیں ہوتی، پھر بعد میں جب انہیں تھوڑا ہوش آیا تو میں نے انہیں بتایا کہ آپ نے مجھے طلاق کا لفظ تین بار کہا ہے، لیکن وہ نہیں مانے، وہ یہی کہتے رہے کہ میں نے تو یہ الفاظ کہے ہی نہیں، جبکہ میں کہتی ہوں کہ کل شام شراب کے نشے میں انہوں نے یہ الفاظ مجھے کہے ہیں اور میں نے سنے ہیں۔

اب مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ اس کا کیا حل ہے؟ اس وقت ان کو بالکل ہوش نہیں تھی، یہاں تک کہ ان کو بالکل سمجھ بوجھ نہیں ہوتی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ نشے کی حالت میں دی گئی طلاق کے بارے میں حنفیہ کا اگرچہ راجح موقف یہی ہے کہ یہ طلاق واقع ہو جاتی ہے، لیکن حنفیہ میں سے ہی بعض بڑے حضرات اور بعض صحابہ و تابعین کا موقف یہ ہے کہ نشے کی حالت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔

ہمارے زمانے میں نشہ کی حالت میں دی گئی طلاق کو واقع ماننے سے اکثر زد بیوی پر ہی پڑتی ہے، لہذا بیوی بچوں کی مجبوری کی وجہ سے ان حضرات کے قول پر عمل کیا جا سکتا ہے، جو نشے کی حالت میں دی گئی طلاق کو واقع نہیں مانتے۔

و في مسئلة طلاق السكران خلاف عال بين التابعين و من بعدهم فقال بوقوعه من التابعين سعيد بن المسيب و عطاء و الحسن البصري و إبراهيم النخعي و ابن سرين و مجاهد و به قال مالك و الثوري و الأوزاعي و الشافعي في الأصح و أحمد في رواية و قال بعدم وقوعه القاسم بن محمد و طاؤوس و ربيعة و الليث و أبو ثور و زفر و هو مختار الكرخي و الطحاوي و محمد  بن سلمة من مشائخنا. (فتح القدير: 3/ 472)

(و يصح طلاق السكران) و لو بنبيذ أو حشيش أو أفيون أو بنج زجراً و به يفتي تصحيح القدوري. (الدر المختار: 3/ 240)

و في التاترخانيه: طلاق السكران واقع و هو مذهب أصحابنا. (رد المحتار: 3/ 241)

مذهب الحنفية المنع عن المرجوع حتی لنفسه لكون المرجوح صار منسوخاً و قيده البيري بالعامي أي الذي لا رأي له يعرف به معنی النصوص حيث قال: هل يجوز للإنسان العمل  بالضعيف من الرواية في حق نفسه نعم إذا كان له رأي، أما إذا كان عامياً فلم أره، لكن مقتضی تقييده بذي الرأي أمه لا يجوز للعامي ذلك، قال في خزانة الروايات: العالم الذي يعرف معنی النصوص و الأخبار و هو من أهل الدراية يجوز له أن يعمل عليها و إن كان مخالفاً لمذهبه قد ذكر في حيض البحر في بحث ألوان الدماء أقوالاً ضعيفة ثم قال و في المعراج عن فخر الأئمة: لو أفتی مفت بشئ من هذه الأقوال في مواضع الضرورة طلباً للتيسر كان حسناً. (رد المحتار: 1/ 74) فقط و الله أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved