- فتوی نمبر: 7-74
- تاریخ: 30 ستمبر 2014
- عنوانات: مالی معاملات > منتقل شدہ فی مالی معاملات
استفتاء
میں نے اس سال فروٹ کی خرید و فروخت کا کام شروع کیا ہے۔ فروخت کی خریداری میں باغ والے کے پاس جا کر کرتا ہوں اور وہیں سے پیٹیاں بھرواتا ہوں، جس وقت فروٹ مثلاً سیب پیٹیوں میں بھرا جاتا ہے اس وقت اس میں کچھ کچا پن ہوتا ہے اور ابھی تک اس نے رنگ نہیں پکڑا ہوتا، رنگ پکڑنے میں دو تین ماہ لگ جاتے ہیں، اس لیے سیب کی یہ پیٹیاں اتنے عرصے کے لیے کولڈ اسٹور میں رکھوا دی جاتی ہیں۔ ان سیبوں کو اگر ان کے کچے پن کی حالت میں ہی منڈی میں فروخت کے لیے لایا جاءے تو ان کی قیمت خرید بھی ہمیں نہیں ملتی، بلکہ الٹا نقصان ہوتا ہے، مثلاً ہم 800 روپے کی سیب کی ایک پیٹی خریدی تو اگر سیب کے رنگ پکڑنے سے پہلے ہی ہم اسے منڈی میں فروخت کے لیے لاتے ہیں تو بمشکل 500 روپے میں یہ پیٹی فروخت ہو گی، جبکہ ہماری خرید 800 روپے کی ہے۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل سوالات کا جواب مطلوب ہے:
1۔ کیا فروٹ میں بھی ذخیرہ اندوزی منع ہے؟
2۔ اگر فروٹ میں بھی ذخیرہ اندوزی منع ہے تو کیا جو صورت ہم نے ذکر کی ہے کہ فروٹ کے رنگ پکڑنے تک اسے کولڈ اسٹور میں جمع کر لیا جاتا ہے، کیا یہ بھی ذخیرہ اندوزی کے زمرے میں آئے گی؟
3۔ ذخیرہ اندوزی کی کیا حدود و قیود ہیں کہ ان کو پیشِ نظر رکھ کر فروٹ وغیرہ میں آدمی ذخیرہ اندوزی سے بچ سکے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
فروٹ کی ذخیرہ اندوزی منع نہیں۔ کیونکہ امام ابو حنیفہ اور امام محمد رحمہما اللہ کے نزدیک ذخیرہ اندوزی غذائی اجناس میں ہے، جبکہ فروٹ غذائی اجناس میں سے نہیں، البتہ بعض فروٹ کہ جنہیں بعض علاقوں میں خشک کر لینے کے بعد بطور غذا استعمال کرتے ہیں مثلاً انجیر، کھجور، انگور، کشمش، بادام ان میں ذخیرہ اندوزی ممنوع ہے، اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک اگرہ ذخیرہ اندوزی غذائی اجناس کے ساتھ خاص نہیں لیکن وہ بھی ضرر عامہ کی اشیاء کے ساتھ ذخیرہ اندوزی کو خاص کرتے ہیں اور فروٹ کی ذخیرہ اندوزی میں ضرر عامہ بھی نہیں۔
القوت: ما يمسك الرمق من الرزق، والقيت مثله. (المحيط في اللغة: 5/ 492)
( قوله وكره احتكار قوت البشر ) الاحتكار لغة : احتباس الشيء انتظارا لغلائه والاسم الحكرة بالضم والسكون كما في القاموس ، وشرعا : اشتراء طعام ونحوه وحبسه إلى الغلاء أربعين يوما لقوله عليه الصلاة والسلام "من احتكر على المسلمين أربعين يوما ضربه الله بالجذام والإفلاس” وفي رواية ” فقد برئ من الله وبرئ الله منه” قال في الكفاية : أي خذله والخذلان ترك النصرة عند الحاجة ا هـ وفي أخرى ” فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين لا يقبل الله منه صرفا ولا عدلا ” الصرف : النفل ، والعدل الفرض شرنبلالية عن الكافي وغيره وقيل شهرا وقيل أكثر وهذا التقدير للمعاقبة في الدنيا بنحو البيع وللتعزير لا للإثم لحصوله وإن قلت المدة وتفاوته بين تربصه لعزته أو للقحط والعياذ بالله تعالى در منتقى مزيدا ، والتقييد بقوت البشر قول أبي حنيفة ومحمد وعليه الفتوى كذا في الكافي ، وعن أبي يوسف كل ما أضر بالعامة حبسه ، فهو احتكار وعن محمد الاحتكار في الثياب ابن كمال . ( قوله كتين وعنب ولوز ) أي مما يقوم به بدنهم من الرزق ولو دخنا لا عسلا وسمنا. (رد المحتار: )
و اتفق الفقهاء أيضاً علی أن الاحتكار حرام في كل وقت في الأقوال أو طعام الإنسان مثل الحنطة و الشعير و الذرة و الأرز و التين و العنب و التمر و الزبيب و اللوز و نحوها مما يقوم به البدن لا العسل و السمن و اللحم و الفاكهة و كذلك يحرم الاحتكار عند الحنفية و الشافعية و الحنابلة رحمهم الله في طعام البهائم كتين و فصفصة و في الرطبة من علف الدواب. (الفقه الإسلامي)
و قد اختلف الناس في الاحتكار فكرهه مالك و الثوري في الطعام و غيره من السلع و كان مالك رحمه الله يمنع من احتكار الكتان و الصوف و الزيت و كل شیئ أضر بأهل السوق إلا أنه قال
ليست الفواكهة من الحكرة. (بذل المجهود)
البتہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے قول "و عن أبي يوسف كل ما أضر بالعامة حبسه فهو احتكار” كا مطلب یہ ہے کہ ایسی چیز ہو جس کے نہ ملنے سے عمومی طور پر لوگوں کو شدید نقصان ہو تو اس کا احتکار ممنوع ہے اور پھل کے نہ ملنے سے عمومی طور پر لوگوں کو شدید نقصان نہیں ہوتا۔ لہذا اس کا احتکار ممنوع نہیں۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved