- فتوی نمبر: 4-216
- تاریخ: 31 جنوری 2012
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
زمین کا مالک*************
*** اپنے والد *** کی زندگی میں ان سے پہلے فوت ہوچکے تھے،***کے اولاد میں ایک بیٹا**ایک بیٹی** اور ایک بیوہ رہ گئی، جس نے بعد میں ***سے نکاح کر لیا،*** کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا *** اپنے دادا ***کے ساتھ رہتا تھا اور *** کی بیوہ نے***سے نکاح کر کے اس کےگھر چلی گئی اور اپنی بیٹی باچاہلال کو بھی اپنے ساتھ *** کے گھر رکھ لیا، بعد میں*** جو 1972ء میں فوت ہوگئے اس کے بعد زمین کی تقسیم اس وقت ہوئی جب ہمارے علاقے میں پہلے مرتبہ پٹواری 1980ء میں ہورہی تھی، اس وقت پٹواری نے کہا کہ اس زمین میں***نہیں بنتا اس لیے کہ اس کے والد پہلے فوت ہوچکے تھے لیکن ** کے چچاؤں نے کہا کہ *** ہمارے بھائی کا بچہ ہے ہم ان کو محروم نہیں کرتے تو انہوں نے اپنی زمین سے تھوڑا حصہ*** کو دے دیا جو پورا حصہ تو نہیں ہے لیکن تھوڑا سا ہے جو پٹوار میں بھی ان کے نام ہوگیا جس کے کاغذات رجسٹری وغیرہ سید محمد کے نام بن گئے جو تقریباً چھ کنال اور چودہ مرلے ہے اس کے ساتھ*** کو پرانا بنا ہوا مکان اور چار مرلے کا پلاٹ بھی دے دیا، باقی زمین ******* نے تقسیم کرلیا اور اپنی بہنوں کا حصہ نہیں دیا۔ ابھی بہنوں نے 2010ء میں اپنے حصے کا مطالبہ کیا تو بھائیوں نے انکار کر دیا تو بہنوں نے عدالت سے مدد مانگی عدالت نے زمین ڈگری ہونے کا حکم دیا ابھی&**، **اور**کے بیٹے کہتے ہیں کہ ہم ***کو حصہ نہیں دیں گے جبکہ ***وغیرہ زندہ ہیں لیکن اپنے بیٹوں کے آگے بے بس ہیں جنہوں نے اپنی خوشی سے *** کو زمین میں کچھ حصہ دیا تھا جس کو ابھی تقریباً 31، 32 سال گذر گئے جن کے کاغذات وغیرہ سب کچھ سید محمد کے نام درج ہے***نے عدالت میں کیس دائر کیا کہ ہماری زمین ڈگری ہونے سے مستثنی قرار دی جائے کیونکہ یہ مجھے میرے بزرگوں*** وغیرہ نے اپنی خوشی سے دی تھی۔
میر ا سوال یہ ہے کہ *** کو زمین میں پورا حصہ نہیں ملا لیکن*** وغیرہ نے تھوڑی سی زمین دی ہے کیا 32 سال بعد یہ لوگ پشیمان ہو کر واپس کر سکتے ہیں؟ براہ کرم قرآن و سنت کی روشنی میں جواب چاہتے ہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں جو زمین** کو ملی تھی، اب وہ لوگ اسے واپس نہیں لے سکتے۔
فلو وهب لذي رحم محرم منه و لو ذمياً أو مستأمناً لا يرجع. (تنویر الابصار: 8/ 596)۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved