• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ساس سے زنا

استفتاء

عرض یہ ہے کہ ہمیں ایک مسئلہ در پیش ہے، جس کی صورت یہ ہے کہ *** کا خاوند ہے، ***نے اپنی ساس سے زنا کر لیا اور دونوں نے اس بات کا اقرار بھی کر لیا ہے اور ***کی ساس رشتہ میں خالہ حقیقی بھی لگتی ہے۔ اب زوجین کے بارے میں شرعاً کیا ہے؟ ہمیں اس بارے میں کیا کرنا  چاہیے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ***کی بیوی ساجدہ اپنے شوہر ***پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو گئی ہے اب میاں بیوی کے طور پر رہنے کی کوئی صورت ممکن نہیں۔ لہذا ***کو چاہیے کہ وہ زبان سے بھی اپنی بیوی ساجدہ کو طلاق دیدے تاکہ وہ عدت گذار کر کہیں آگے نکاح کرنا چاہے تو کر سکے۔

اعلاء السنن (11/ 30) میں ہے:

عن عمران بن حصين رضي الله عنه قال فيمن فجر بأم امرأته حرمتا عليه.

اعلاء السنن میں دوسری جگہ (11/ 30)  ہے:

أن رجلاً قال أنه أصاب أم امرأته فقال له ابن عباس حرمت عليك امرأتك و ذلك بعد ….

اعلاء السنن میں دوسری جگہ (11/32)  ہے:

و من طريق مغيرة عن إبراهيم و عامر هو الشعبي في رجل وقع على أم امرأته قال حرمتا عليه كلتاهما.

اعلاء السنن میں دوسری جگہ (11/ 34)  ہے:

عن ابن جريج سمعت عطاء يقول إذا زنى رجل بأم امرأته أو بنتها حرمتا عليه جميعاً.

و عن ابن جريج أخبرني ابن طاؤس عن أبيه في الرجل يزني بالمرأة لا ينكح أمها و لا بنتها.

فتاویٰ شامی (4/ 111، فصل فی المحرمات) میں ہے:

إن وطء الأمهات يحرم البنات و نكاح البنات يحرم الأمهات…… فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved