• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

شرکاء کی ذمہ داریوں کا تعین

استفتاء

T.S *** میں واقع ایک کاسمیٹک اسٹور ہے، جہاں پر کاسمیٹک سے متعلق سامان کی ریٹیل اور ہول سیل کے اعتبار سے خرید و فروخت کی جاتی ہے۔

T.S کے پارٹنر/شرکاء کی ذمہ داریاں متعین ہیں جو   ان کی صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے متعین کی گئی ہیں چنانچہ   ایک شریک کو   دکان   کے نظم و ضبط   کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری دی گئی ہےاسی طرح ایک کے ذمہ دکان کے تمام آئٹم پر نظر رکھنے اور سیل کرنے کی ذمہ داری ہےبعض کے ذمے سامان کم زیادہ ہونے کی صورت میں منگوانے یا نہ منگوانے کا کام ہے ایک شریک کی ذمہ داری کاؤنٹر سنبھالنے   پیمنٹس وصول کرنے اور اسی طرح پارٹیوں سے پیسے لینے کی ہے ۔

اسی طرح شرکاء میں سے کسی بھی شریک کےاسٹور پر کسی عذر کی بناء پرحاضر نہ ہونےکی صورت میں  اس شریک کا کام کوئی بھی دوسرا شریک کر لیتا ہے،T.S پر اسٹور کے شرکاء کے أوقات کار متعین نہیں ہیں ، ہر شریک اپنے تقاضے کے پیش نظر جلدی جا سکتا ہے، اور دیر سے بھی آسکتا ہے، البتہ تقاضا نہ ہونے کی صورت میں ہر شریک پورا ٹائم دیتا ہےیہ سب اسٹور کے شرکاء  کی باہمی رضامندی سے ہے ۔

T.S کے شرکاء   میں سے کسی بھی شریک کو چھٹی کا تقاضا ہو یا جماعت میں جانے کی ترتیب ہو یا حج وعمرہ پر جانا ہوتو باقی شرکاء کی طرف سے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا،باہمی رضا مندی سے باقی شرکاء   کاموں کی ترتیب بنا لیتے ہیں۔

شرکاء کےاوقاتِ کار،ذمہ داریوں  اور چھٹیوں کے حوالے سے مذکورہ پالیسی کا کیا حکم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

شرکاء کا باہمی رضامندی سے ذمہ داریوں کو متعین کرنا ،اسٹور پر دیر سے آنایا  جلدی چلے جانا،کسی ایک شریک کا چھٹی کرنا اور دوسرے شرکاء کا اس سے متعلقہ کاموں کو سنبھال لینا شرعا جائز اور درست ہے ۔

الدرالمختار وحاشیۃابن عابدین(۶/۴۸۵)

[تنبيه] علم مما مر أن العمل لو كان مشروطا وعليهما لا يلزم اجتماعهما عليه كما هو صريح قوله وإن عمل أحدهما فقط، ولذا قال في البزازية: اشتركا وعمل أحدهما في غيبة الآخر فلما حضر أعطاه حصته ثم غاب الآخر وعمل الآخر فلما حضر الغائب أبى أن يعطيه حصته من الربح، إن كان الشرط أن يعملا جميعا وشتى فما كان من تجارتهما من الربح فبينهما على الشرط عملا أو عمل أحدهما، فإن مرض أحدهما ولم يعمل وعمل الآخر فهو بينهما. اهـ۔والظاهر أن عدم العمل من أحدهما لا فرق أن يكون بعذر أو بدونه كما صرح بمثله في البزازية في شركة التقبل معللا بأن العقد لا يرتفع امتناعه واستحقاقه الربح بحكم الشرط في العقد لا العمل اهـ ولا يخفى أن العلة جارية هنا.

شرح المجلۃ الاتاسی(۴/۲۹۴)

المادۃ(۱۳۷۰) اذا شرط الشریکان تقسیم الربح بینھما علی مقدار رأس المال سواء کان رأس المال متساویا أو متفاضلا یکون صحیحا ویقسم الربح بینھما علی قدر رأس المال کما شرط سواء شرط عمل الاثنین أو شرط عمل الواحد وحدہ الا انہ اذا شرط عمل الواحد وحدہ یکون رأس مال الآخر فی یدہ بضاعۃ،فلذلک الآخر ربح مالہ وعلیہ وضیعتہ وللعامل ربح مالہ وھو متبرع بالعمل بمال الآخر۔ولا فرق فیما اذا شرط عمل الاثنین بین ان بعملا أو بعمل احدھما دون الآخر بعذر أو بغیر عذر فان عمل احدھما کعملھما کما فی الھندیۃ عن المضمرات۔

فتاوی عالمگیریۃ(۲/۳۲۰)

وان عمل أحدھما ولم یعمل الآخر بعذر أو بغیر عذر صار کعملھما معا۔

فتاوی عثمانی(۳/۵۹)

سوال:اگر کوئی شریک معاہدہ کے مطابق عمل کرنا چھوڑ دے یعنی تجارت میں ذاتی طور پر کام کرنا چھوڑدے جبکہ تجارت میں ذاتی طور پر کام کرنا معاہدہ نامے میں شرط کے طور پر مذکور ہے،اور پھر کام چھوڑ کر کہیں چلا جائے اور پندرہ سال تک اس طرح غائب رہے تو شرعا ایسا غائب شریک تجارت میں شریک سمجھاجاتا ہے یا نہیں؟اور اس کی شرکت ختم ہوجاتی ہے یا نہیں؟

جواب:محض کام چھوڑ دینے یا غائب ہوجانے سے شرکت ختم نہیں ہوتی۔اگر دوسرے شرکاء اس کے کام چھوڑ دینے کی صورت میں اس کے ساتھ شرکت کو پسند نہیں کرتے تھے تو ان کو اس کے ساتھ صراحۃ شرکت فسخ کردینی چاہیے تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved