• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تحریری طلاق کی ایک صورت

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

جناب مولانا صاحب مودبانہ  گزارش ہے کہ آج سے پندرہ سال پہلے میں نے اپنی اہلیہ کو ایک طلاق دی تھی گھریلو رنجش کے باعث ،میرے منہ کے الفاظ تھے کہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ‘‘ایک بار کہا تھا پھر مشورہ کرکے دوبارہ ایک ہفتے کے درمیان رجوع کر لیا تھا ،اس کے بعد میرے تین بیٹے پیدا ہوئے پھر گھر یلو ناچاقی اور بیٹے کے ماں پر کسی سے ناجائز تعلقات کے الزام پر میں نے بیوی کو گھر سے نکال کر تحریری طلاق (جس کی عبارت آگے درج ہے)سسرال بھیجی ہے، لیکن انہوں نے وصول نہیں کی ،میں نے یونین کونسل میں جمع کروا دی ہے ۔اب شرعی لحاظ سے کتنی طلاقیں ہوئیں ؟اور رجوع ہو سکتا ہے یا نہیں؟

طلاق نامہ کی عبارت

’’منکہ***** ۔۔۔۔اندریں وقت  بقائمی ہوش وحواس  خمسہ بلاجبر واکراہ بلاترغیب غیرے ازخود اپنی کامل رضاورغبت سے اس امر کا اقرار کرتا اور لکھ دیتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔کچھ عرصہ سے من مقراور مذکوریہ کے مابین حالات کشیدہ ہوگئے ہیں ، تنازعات کم ہونے کے بجائے شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ من مقر نے اپنا گھر بسانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر مذکوریہ اپنی من مانی کرتی ہے ۔مسماۃ مذ***** بداخلاق، نافرمان اور بد زبان ہے،کہنے سننے میں نہ ہے۔ ان حالات کی بناء پر اور بڑی سوچ و بچار کے بعد اپنے شرعی حق استعمال کرتے ہوئے مذکوریہ کو طلاق اول قابل رجعی دیتا ہوں ،لہذا تحریر روبرو گواہان لکھ دی ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوےالمرقوم:2020-06-02‘‘

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ طلاق نامہ کی رو سے ایک رجعی طلاق واقع ہو چکی ہے جس کا حکم یہ ہے کہ دوران عدت شوہر  رجوع کرناچاہے تو کرسکتا ہے اور عدت کے بعد اکٹھے رہنے کے لیے نیا نکاح کرناہوگا،چونکہ شوہر ایک طلاق پہلے بھی دے چکا ہے لہذا مذکورہ طلاق دوسری طلاق شمار ہوگی اورآئندہ کے لیے شوہر کو صرف ایک طلاق کا حق حاصل ہوگا۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved