- فتوی نمبر: 3-221
- تاریخ: 22 جولائی 2010
- عنوانات: حظر و اباحت > مالی معاملات
استفتاء
ایسا شخص جس کی کمائی بالکل حرام ہو جیسے سودی کاروبار وغیرہ تو یہ شخص جب اپنی کمائی میں سے اپنے گھر کے ملازم وغیرہ کو ان کی ماہانہ تنخواہ دے گا تو کیا وہ رقم اس ملازم کے لیے جائز ہے یا نہیں؟ جبکہ جانتا ہو کہ میرے مالک کی کمائی حرام ہے؟ اسی طرح ایک ڈرائیور کے لیے وہ پیسے جو اس نے ایک سودی کاروبار یا حرام کمائی والے فرد سے کرایہ کے لیے وصول کیے ہیں کیا وہ اس کے لیے جائز ہیں یا نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ اشخاص کے لیے اپنے جائز عمل کے بدلے میں حاصل ہونے والا کرایہ اورا جرت جائز ہے خواہ کرایہ دینے والے شخص نے وہ حرام ذریعے سے کمایا ہو۔ کیونکہ معاملہ کرتے وقت حرام مال کو متعین طور سے اجرت قرار نہیں دیا جاتا یعنی گاہک جیب میں سےرقم نکال کر ان کی طرف اشارہ کر کے نہیں کہتا کہ ان کے عوض مجھے یہ سہولت دے دو۔ اور اس صورت میں جہاں مال حرام عوض ہو لیکن اسے متعین نہ کیا گیا ہو اس میں گنجائز ہے۔
اشترى بمال الحرام فهو على خمسة أوجه. قلت: و الإجارة كالبيع والشراء فإنه بيع المنافع.(شامی )
© Copyright 2024, All Rights Reserved